29 C
Lahore
Saturday, May 3, 2025
ہومغزہ لہو لہولطیفے میں حقیقہ - ایکسپریس اردو

لطیفے میں حقیقہ – ایکسپریس اردو


ہم دیکھتے ہیں جہاں کہیں لطیفہ بازی ہوتی ہے یا دوسرے الفاظ میں دلدار پرویز بھٹی بازی جمتی ہے تو اکثر لطیفے یاکثیفے ایک خاص پوائنٹ یا پنچ پر ختم ہوجاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بدذوق بلکہ بے ذوق کہا جاتا ہے جو اس کے بعد ہنستے نہیں بلکہ منہ یوں کھولے رہتے ہیں جیسے آگے کچھ اور سننا چاہتے ہوں اور وہ بھی کانوں کے بجائے منہ سے ۔لیکن کچھ لطیفے یاکثیفے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس پنچنگ پوائنٹ کے بعد بھی باقی رہ جاتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لطیفہ ختم ہوجاتا ہے لیکن حقیقہ رہ جاتا ہے کیوں کہ حقیقہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں لطیفہ ختم ہو جاتا ہے ۔

 کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا ، اس کی تمنا تھی ، خدا سے التجا تھی کہ تخت کاوارث پیدا ہو، آخر بادشاہ کی خواہش ایک شہزادے کی پیدائش سے پوری ہوگئی لیکن ایک اورآزمائش پیدا ہوگئی ، شہزادہ تھا تو ’’نر‘‘ لیکن لگتا تھا ناری، کچھ بڑا ہونے پر شہزادے کے اندرسے شہزادی نکل آئی، وہ لڑکیوں کی طرح، خود کو پچکاتا، مٹکاتا تھا اورتالیاں بجا کر سارا بدن پچکا کر اورلہرا کر بات کرتا تھا ، مسئلہ گھمبیر ہوگیا ، طلب وزیر ہوگیا اوربادشاہ اس سے تدبیر کا طالب گیر ہوگیا ، وزیر باتدبیر نے تدبیر پیش کی کہ شہزادے پلس شہزادی کو ایک الگ تھلگ قلعے میں سو ہم عمر نوجوانوں کے ساتھ رکھاجائے تو ممکن ہے شہزادی کے اندر سے شہزادہ ، ناری کے اندر سے نر اورلڑکی کے اندر سے لڑکا نکل آئے ۔

تدبیر پر فوراً عمل کیاگیا، سو چنیدہ لڑکوں کے ساتھ شہزادے پلس شہزادی کو قلعہ بند کیاگیا اورہر فرد وبشر کو پابند کردیا گیا کہ قلعے کے آس پاس زنانہ تو کیا زنانہ آواز کو بھی ممنوع کیاجائے ۔سال گزرگیا تو بادشاہ نے بیٹے کی پراگرس دیکھناچاہی لیکن جب قلعہ کادروازہ کھولا گیا تو سامنے ایک سو ایک لڑکی نما لڑکے یا لڑکا نما لڑکیاں کھڑی شرماتی، لجاتی ،لہراتی، بل کھاتی اورتالیاں بجاتی نظر آئیں۔لطیفہ تو یہاں ختم ہوگیا اب حقیقہ شروع ہونے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایک سوال ، کیوں؟کیا ان سو بچوں میں بھی پیدائشی نقص تھا اوراس شہزادے میں بھی ایک پیدائشی جادو تھا اوروہ جادو یہ تھا کہ وہ شہزادہ تھا ، صاحب زادہ تھا، اوران سو کا عیب یہ تھا کہ وہ عوام زادے تھے اورغریب زادے تھے ۔

 نہیں سمجھے تو چلئے عربی زبان کے ایک چارلفظی جملے پر غورکیجیے …اورجملہ ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ ، عوام اپنے حاکموں کے ’’دین ‘‘ پر ہوتے ہیں ۔ یہی سچ ہے ، حق ہے۔باقی سب جھوٹ ہے۔

 اب ذرا اس ’’سیاہ خانے‘‘ پر نظر ڈالیے، جس کا نام نامی اوراسم گرامی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اورجہاں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ جو انسانوں سے کم بہت ہی بہت زیادہ کم اورجانوروں سے تھوڑے بہت تھوڑے بہت ہی تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں اوردوسرے وہ جو انسانوں سے اوپر بہت ہی اوپر ہوتے ہیں ۔ اب یہ پیٹ بھرے، گھر بھرے، جیب بھرے سب کچھ بھرے ان کی تقلید کریں گے جو پیٹ خالی، جیب خالی ہوتے ہیں یا یہ ان پیٹ بھروں کی تقلید کریں یا یوں کہیے کہ پندرہ فی صد اشراف ان پچاسی فی صد خداماروں جیسے بننے کی کوشش کریں گے یا خدا مارے ان کے جیسے بننے کی کوشش کریں گے؟

سمجھ دانی میں نہ آرہا ہو تو اپنے دانا دانشوروں سے ،زبان وروں سے، قلم وروں سے پوچھ لیجیے، جو دن رات اخباروں میں چینلوں میں ’’بجتے ‘‘ رہتے ہیں کہ معاشرے میں کرپشن بڑھ رہی ہے جرائم بڑھ رہے ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں ،ہم کہاں جارہے ہیں ، ہم کہاں جئیں گے ،کہاں مریں گے۔

 میں کہاں ہوں کہاں نہیں ہوں میں

 اب جہاں ہوں وہاں نہیں ہوں میں

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

 کوئی کہہ دے یہاں نہیں ہوں میں

 اب اگر ’’الناس‘‘ … دین ملوکھم‘‘ اختیار کررہے ہیں تو اس میں عجب کیاہے ، ہمیشہ ایسا ہوتا تھا ،ہوتا ہے اورہوتا رہے گا ۔ کالانعاموں کے پاس ہوتا کیا ہے جس میں کوئی کشش محسوس کرے ایک نحیف ونزار، کمزور،بیمار، بے بس اورلاچار بلکہ ’’مجبوری‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی’’ایمانداری‘‘ ؟؟؟ اسے کوئی اختیار کرے گاکیا ؟سب کچھ تو ’’ملوکھم‘‘ کے پاس ہے، دنیا کی بے تحاشہ دولتیں، عالی شان بنگلے اوران کے بچے اوربیگمات دولتوں کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہی ہیں ۔ پارٹیاں ہیں، زیورات ہیں، ملبوسات ہیں، ایک پاؤں یہاں، دوسرا لندن، امریکا دبئی میں مطلب یہ کہ ہردن عید اور ہر رات شب برات۔

تو ’’مملوک‘‘ ان کے جیسے بننے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے ۔کریں گے ضرورکریں دیوانہ وار کریں گے اورکررہے ہیں ۔’’المملوک علیٰ دین ملوکھم‘‘

درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

 بازمی گوئی کہ دامن تر کن ہوشیارباس

 یعنی تم نے مجھے ایک تختے سے باندھ کردریا کے درمیان پھینکا ہے اورکہہ رہے ہو خبردار اگر دامن تر کردیا۔

کسی مسافر کو بلکہ بھوکے پیاسے مسافر کو دوراستوں کے بیج کھڑا کردو جن میں ایک راستہ جنگل بیابان، پیاسے ریگستان اورکانٹوں سے بھرپور جنگل کو جارہا ہے جب کہ دوسرا ایک ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے پھلوں پھولوں والے باغ کی طرف جارہا ہے اوردونوں راستوں کے بارے میں یہ سب کچھ معلوم بھی ہے تو وہ کس راستے پر جائے گا؟

چلئے یہ بھی فرض کرلیجیے کہ وہاں کچھ لوگ بھی لاوڈ اسپیکر لگائے بولے جارہے ہیں کہ اس باغ والے راستے پر مت جاؤ یہ راستہ اچھا نہیں ۔ تم بیابان والا کانٹے دار راستہ اختیار کرو کہ یہی راستہ بہتر ہے ۔

تو کیا وہ مان لیں گے

 خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ وہ سو کے سو نوجوان مملوک تھے اور وہی کیا جو مملوک کرتے ہیں ،اگربادشاہ شہزادی کو شہزادہ بنانا چاہتا تھا تو اس کے سارے شاہی نشان مٹا کر کسی عوامی ہجوم میں ویسے ہی چھوڑ دیتا اورکسی کویہ معلوم نہ ہونے دیتا کہ وہ کون ہے ؟ تو یقیناً کچھ عرصے بعد وہ مرد بن جاتا ۔ اس سے جو دوسری بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اسٹوپڈ تھا اوروزیر باتدبیر بھی اسٹوپڈ تھے اوریہ ہمارے سقراط بقراط بھی۔ جو جلتے ہوئے الاؤ میں پھول اگانے کی کوشش کررہے ہیں ، پہلے الاؤ بجھاؤ پھول خود بخود اگنا شروع ہوجائیں گے ۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات