32 C
Lahore
Saturday, May 3, 2025
ہومغزہ لہو لہوبھارت کی میڈیا محاذ پر شکست

بھارت کی میڈیا محاذ پر شکست


پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جو روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کے علاوہ یہ جنگ میڈیا کی سرحدوں پر بھی جاری ہے۔ ویسے تو اب کہا جاتا ہے کہ میڈیا کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں۔ میڈیا ایک گلوبل ویلج بن گیا ہے لہٰذا خبر کو روکنا عملی طور پر ناممکن ہو گیا ہے۔ میڈیا کی سرحدیں ختم ہو گئی ہیں، ایسے بین الاقوامی پلیٹ فارم آگئے ہیں جہاں سرحدوں اور قومیت کی تقسیم ختم ہو گئی ہے۔

لیکن حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت نے میڈیا کی جنگ میں ہار تسلیم کر لی ہے۔ پہلگام کے واقعہ کے فوری بعد سوشل میڈیا کی جنگ میں پاکستان نے بھارت کو واضح شکست دی۔

سوشل میڈیا ٹرینڈز میں پاکستان کی واضح برتری نظر آئی۔ بے شک بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے سوشل میڈیا صارفین کی تعداد بھی پاکستان سے بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی پاکستان کو واضح برتری رہی۔ بھارت کو اس برتری کی تکلیف محسوس ہوئی۔ بھارت کے ٹی وی شوز نے بے شک بہت پراپیگنڈا کیا لیکن سوشل میڈیا پر بھارت کو شکست ہوئی۔

اسی شکست کی وجہ سے بھارت نے پاکستانی صحافیوں کے یو ٹیوب چینل بھارت میں بند کروائے۔ یہ یوٹیوب چینل بھارت کے عوام کو پاکستان کا موقف پہنچا رہے تھے۔ اس جنگی ماحول میں بھارت کے عوام اپنے صحافیوں کے بجائے پاکستانی صحافیوں کے یوٹیوب چینل دیکھ رہے تھے۔ وہ پاکستان کا موقف جاننا چاہتے تھے، وہ پاکستان کی رائے کو معتبر سمجھ رہے تھے۔جب بھارت کی مودی حکومت نے دیکھا کہ پاکستانی صحافی بھارت میں ان کے پراپیگنڈے کو ناکام کر رہے ہیں، لوگ دوسری طرف کے موقف کو وزن دے رہے ہیں تو بھارت نے پاکستان کے بڑے صحافیوں کے یوٹیوب چینل بند کر دیے۔

یہ چینل اب پوری دنیا میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن بھارت کے لوگ ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ حالانکہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ بھارتی عوام نے پاکستانی صحافیوں اور پاکستان کا موقف سننے کے لیے وی پی این کا سہارا لینا بھی شروع کر دیا ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مجبور کیا کہ پاکستانی صحافیوں کے چینل بھارتی شہری نہ دیکھ سکیں۔ یہ سنسر شپ ہے۔

ویسے تو بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں میڈیا کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن پاکستانی صحافیوں پر سنسر شپ بھارتی جمہوریت کے چہرے کو داغدار کر رہی ہے۔ جواب میں پاکستان نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ لوگ پاکستان میں جس بھی بھارتی صحافی کو سننا چاہیں سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔اس کے بعد پاکستانی فنکاروں اور گلوکاروں کے بھی سوشل میڈیا ہینڈلرز کو بھارت میں بند کیا گیا۔ یہ بھی ایک طرح سے شکست تسلیم کی گئی کیونکہ یہ فنکار یقیناً پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے۔ بھارت نے عملی طور پر آج کے اس جدید دور میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت کے عوام پاکستان اور پاکستانیوں کا موقف نہ سن سکیں اور نہ جان ہی سکیں۔ میری رائے میں میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کے محاذ پر یہ بھارت کی بڑی شکست نظر آئی ہے۔ بھارت کا بوکھلایا ہوا چہرہ نظر آیا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے کچھ صحافی جو موجودہ حکومت اور اداروں کے خلاف ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر بھی اپنی مخالفانہ مہم جاری رکھی۔ حالانکہ جنگ کے موقع پر تو اندرونی اختلافات ختم کر دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر سب حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی سینیٹ میں تمام سیاسی اختلافات کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بھلا کر اس وقت بھارت کے خلاف اکٹھی ہیں۔ قومی اتفاق رائے اور قومی یکجہتی نظر آرہی ہے۔ لیکن چند لوگ بھارت کے ساتھ کھڑے بھی نظر آئے ہیں۔

مجھے کوئی بھی بھارتی صحافی پاکستانی میڈیا پر نظر نہیں آیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے جب بھی کوئی ایونٹ ہوتا تو بھارتی صحافی پاکستانی میڈیا میں نظر آتے تھے، وہ بھارت کا موقف پیش کرتے تھے۔ لیکن اس بار بھارتی صحافیوں کو ان کی حکومت کی جانب سے سخت ہدایات تھیں کہ انھوں نے پاکستانی میڈیا پر نہیں جانا۔ وہ بھارت کا موقف دینے بھی نہیں آرہے تھے۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا کے پاس ایسے لوگوں کی لسٹ تھی جو پاکستانی تو ہیں لیکن پاکستان کے مخالف ہیں، ان کو بھارتی میٖڈیا میں بلایا گیا ہے اور ان سے پاکستان کے خلاف بات کروائی گئی ہے۔

مجھے ان لوگوں پر افسوس ہے کہ انھوں نے اس موقع پر پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ ان کے اختلافات اپنی جگہ لیکن وہ ایسے موقع پر پاکستان کی مخالفت کریں یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام رابطے بند ہو گئے ہیں، بارڈر بند ہو گئے ہیں، فضائی حدود بند ہو گئی ہیں، ویزے بند ہو گئے ہیں، ٹریڈ بند ہو گئی ہے۔کرکٹ اور باقی کھیل تو پہلے ہی بند ہیں۔ کرکٹ کی بھارت کی ہٹ دھرمی پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ اسی طرح باقی کھیلوں پر بھی بھارت کا رویہ دنیا کے سامنے ہے۔ کھلاڑیوں نے بھی بھارتی پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔ ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ جنگوں میں بھی ہم نے میڈیا کو جاری دیکھا ہے لیکن بھارت نے میڈیا کو بھی بند کیا ہے۔

کیا اس کے بعد پاکستانی صحافیوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کو بھارتی میڈیا کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ جب وہ رابطہ کریں تو ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پہلے پاکستانی صحافیوں سے پابندیاں ہٹائی جائیں تب آپ سے بات ہوگی۔ جن لوگوں نے بھارتی میڈیا پر جا کر پاکستان کے خلاف بات کی ہے ان کے بھی بائیکاٹ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام کو ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ میں یہاں نام نہیں لکھنا چاہتا۔ لیکن کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر ان کی نشاندہی ہونی چاہیے۔

تا کہ ان کا کردار بھی قوم کے سامنے آسکے۔ کیا اس بائیکاٹ کو بھارت کو کوئی فائدہ ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میڈیا کے حو الے سے بھارت نے جو غیر جمہوری پالیسی بنائی ہے اس کا بھارت کو کوئی خاص فائدہ ہوگا۔ اس کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی بھی نہیں ملے گی۔ یہ درست ہے کہ جیسے کرکٹ کو بھارت نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

ایسے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی بھارت کے سامنے بے بس نظر آئے ہیں۔ انھوں نے بھارتی حکومت کی سنسر شپ قبول کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہیں۔ بھارتی تسلط وہاں نظر آیا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حکومتی پابندیوں پر شور مچاتے ہیں، کیا وہ اب بھارت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں یا بھارت کے سامنے وہ خاموش ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات