گزشتہ مضمون میں یہ بھی بتایا گیا کہ یونٹ بیاسی سو میں جو نوجوان تین برس خدمات انجام دے لیتے ہیں ان کی نہ صرف ہائی ٹیک کی صنعت میں مانگ بڑھ جاتی ہے بلکہ وہ خود بھی کمپنیاں قائم کر سکتے ہیں۔ان میں سے متعدد نوعمر کمپنیاں اے آئی کی نئی دنیا کا ہراول دستہ ہیں اور اسرائیلی و دیگر ممالک کی دفاعی صنعت میں بطور کنٹریکٹر خدمات دینے کے ساتھ ساتھ معروف ہائی ٹیک کمپنیوں کے نئے منصوبوں اور تحقیق میں بھی اشتراک کرتی ہیں۔
یونٹ بیاسی سو کا نام تب زیادہ مشہور ہوا جب چھ ستمبر دو ہزار سات کو اسرائیلی فضائیہ نے شام کے علاقے دیر الزور میں قائم ایک مبینہ ایٹمی مرکز کو تباہ کر دیا۔آپریشن آرچرڈ نامی اس مشن میں یونٹ بیاسی سو کے تیار کردہ الیکٹرونک آلات سے مسلح طیاروں نے بھی حصہ لیا جنھوں نے شامی ریڈار سسٹم کو اندھا کر کے آسمان بالکل صاف دکھایا تاوقتیکہ اسرائیلی مشن باحفاظت مکمل نہیں ہو گیا۔
اسرائیل نے کہیں گیارہ برس بعد ( دو ہزار اٹھارہ) شامی جوہری مرکز تباہ کرنے کا اعتراف کیا۔جب کہ بشارالاسد حکومت نے بھی خفت سے بچنے کے لیے مسلسل چپ سادھے رکھی۔ اعتراف کی صورت میں یہ بھی قبولنا پڑتا کہ یہ خفیہ جوہری مرکز کیا کیوں کیسے کام کر رہا تھا۔
دو ہزار دس میں یونٹ بیاسی سو نے ایرانی جوہری پروگرام پر سائبر حملہ کیا اور یورینیم کی افزودگی میں استعمال ہونے والے لگ بھگ تین سے پانچ ہزار سینٹری فیوجز کو سٹکسنیٹ وائرس کے ذریعے ناکارہ کر دیا۔دو ہزار سترہ میں لبنان کی سرکاری ٹیلی کام کمپنی اوگیرو پر سائبر حملہ ہوا جس سے مواصلاتی نظام چند دن کے لیے درہم برہم ہو گیا۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر برقیاتی نگرانی کا جال تو خیر چپے چپے پر ہے۔دو ہزار چودہ میں تینتالیس ریزرو فوجیوں نے کھلے خط میں ان لاکھوں فلسطینی شہریوں کی الیکٹرونک نگرانی کی مذمت کی جو پرتشدد کارروائیوں کا حصہ نہیں تھے۔
مگر یونٹ بیاسی سو پر سب سے زیادہ تنقید سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے حماسی حملے کے بعد ہوئی جب اسرائیل کا غزہ کی الیکٹرونک نگرانی کا نظام دھرا رہ گیا۔ شدید تنقید کے سبب یونٹ بیاسی سو کے اس وقت کے انچارج سے ذمے داریاں واپس لے لی گئیں۔
ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوا کہ دو ہزار بائیس میں حماس کی دستی ریڈیو کمیونیکیشن کی نگرانی وقت اور وسائل کا ضیاع فرض کر کے روک دی گئی۔حماس گزشتہ کئی برس سے بظاہر خاموش تھی اور حماس کا مسلح بازو القسام بریگیڈ جو ’’ جنگی مشقیں ‘‘ کرتا تھا اسرائیلی عسکری اور سراغرساں اسٹیبلشمنٹ انھیں بچوں کے بہلاوے کے طور پر دیکھتی رہی۔
حماس کے حملے سے تین ماہ قبل جولائی دو ہزار تئیس میں یونٹ بیاسی سو کے ایک تکنیکی تجزیہ کار نے اپنی مواصلاتی تجزیاتی رپورٹ میں خبردار کیا کہ حماس کسی بڑی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔غزہ کے اردگرد الیکٹرونک آلات سے مسلح واچ ٹاورز پر ڈیوٹی دینے والا یونٹ بیاسی سو کا نچلا عملہ صاف صاف حماس کی غیر معمولی مسلح مشقوں کو نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ ان کی تفصیلات بھی اوپر بھیج رہا تھا۔
ان مشقوں میں خاردار تاریں کاٹنے ، یرغمال بنانے اور یرغمالیوں کو اپنے ساتھ لانے سمیت ہر وہ مشق شامل تھی جس پر سات اکتوبر کو حرف بہ حرف عمل ہوا۔مگر سینیر قیادت یہ تصور ہی مضحکہ خیز سمجھتی رہی کہ حماس جیسی کمزور تنظیم انتہائی مستعد اور طاقتور اسرائیلی فوجی مشین سے سر ٹکرانے کی حماقت کر سکتی ہے۔حماس نے سات اکتوبر کو سب سے پہلے واچ ٹاورز کے سنتریوں کو ہی نشانہ بنایا۔ان میں سے صرف دو زندہ بچ سکے۔
البتہ سات اکتوبر اسرائیل کے لیے یوں اہم موڑ ثابت ہوا کہ مصنوعی ذہانت ( اے آئی ) کے ٹولز کو عسکری منصوبہ بندی ، اہداف اور دشمنوں کی نشان دہی اور خاتمے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔اگرچہ اے آئی ماہرین متفق تھے کہ یہ ٹیکنالوجی ابتدائی تجرباتی مراحل میں ہے اور اسے غلطیوں سے پاک کرنے کے لیے بہت کام باقی ہے۔مگر اسرائیل نے اس ٹیکنالوجی کو غزہ کے لاکھوں لوگوں پر ایسے بے دریغ طریقے سے استعمال کیا جیسے نئی ایجادات و ادویات کو جانوروں پر آزمایا جاتا ہے۔
ویسے بھی نسل پرست صیہونی نظریے کے مطابق یہودی ایک برگزیدہ قوم ہیں اور دیگر اقوام بالحضوص عرب ان سے ہر اعتبار سے کمتر ہیں۔ اسرائیلی نظریاتی اسٹیبلشمنٹ کے پچھلے پچھتر برس کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ فلسطینی نیم انسان بلکہ دو ٹانگوں پر چلنے والے جانور ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس سوچ کے ساتھ فلسطینیوں پر سب سے پہلے اگر ہر نیا ہتھیار اور ٹیکنالوجی آزمائی جائے اور اس دوران اس کے غلط اور تباہ کن استعمال کو اسی طرح بہتر بنایا جائے جیسے کسی جانور پر آزما کے نئی جدت کی خامیوں پر قابو پایا جاتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟
اسرائیل نے دو ہزار اکیس میں غزہ پر فوج کشی کے دوران دو اے آئی ٹول ’’ گوسپل ’’ اور ’’ لیونڈر‘‘ محدود پیمانے پر استعمال کیے مگرموجودہ نسل کشی میں یہ دونوں ٹول نہائیت اطمینان سے استعمال ہو رہے ہیں۔دونوں اے آئی پروگرامز میں جو ممکنہ ڈیٹا فیڈ کیا گیا ہے اس کی بنیاد پر گوسپل ان عمارتوں اور ٹھکانوں کی نشاندہی کرتا ہے جہاں حماس کے مسلح ارکان ہو سکتے ہیں۔جب کہ لیونڈر ’’ مشتبہ دھشت گرد ‘‘ چہروں کی نشاندھی اور تجزیہ کر کے اپنی رائے دیتا ہے۔اس تجزیے کی بنیاد پر ہی کسی عمارت یا اسٹرکچر کی تباہی یا انسانی قتل کا فیصلہ ہوتا ہے۔ڈیٹا فیڈنگ میں فون کالز کی ٹریکنگ سے ملنے والا مواد ، گھروں اور ان کے مکینوں کی تفصیل بھی شامل ہے۔
اے آئی کے ٹارگٹ روم میں کام کرنے والے ایک سابق افسر نے امریکی ٹائم میگزین کو بتایا کہ چند برس پہلے تک ڈیڑھ سو سے دو سو ٹارگٹ منتخب کرنے کے لیے بیس سے پچیس ماہرین کی ٹیم سال میں ڈھائی سو دن کام کرتی تھی۔مگر اے آئی کی مدد سے اب اتنے ہی ٹارگٹ ہفتے بھر میں منتخب ہو جاتے ہیں۔
اس شعبے سے منسلک چھ سابق افسروں نے آن لائن اسرائیلی میگزین پلس نائن سیون ٹو کو بتایا کہ انسانی اہداف منتخب کرنے میں لیونڈر پروگرام دس فیصد تک غلط ثابت ہوا ہے۔مگر کسی بھی طرح کی بازپرس سے آزاد کمانڈروں کو اس خامی کی کوئی پرواہ نہیں۔ان کے پاس ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی منظوری کے لیے صرف بیس سیکنڈ ہوتے ہیں۔چنانچہ وہ لیونڈر کے تجزیے کو حرف بحرف درست سمجھ کر آخری حکم دے دیتے ہیں۔لیونڈر نے صرف غزہ میں سینتیس ہزار شہریوں کی نشاندہی کی ہے جن کا حماس سے براہِ راست یا بلاواسطہ ’’ تعلق ’’ ہے۔
دو ہزار اکیس کے معرکے میں کسی بھی ٹارگٹڈ عمارت پر حملہ کرنے سے پہلے مکینوں کو اشتہار گرا کے یا فون کال کے ذریعے یا ایک ہلکا پھلا دھماکا کر کے کچھ وقت کی مہلت دی جاتی تاکہ وہ عمارت خالی کر دیں۔مگر موجودہ نسل کشی میں یہ تکلف بھی برطرف ہوگیا ہے۔نئے جنگی ضوابط کے مطابق حماس کے ایک عام مسلح حامی کو ہلاک کرنے کی کارروائی میں اگر پندرہ سے بیس بے گناہ شہری یا ایک کمانڈر کو ہدف بنانے کے دوران ایک سو شہری بھی مارے جاتے ہیں تو یہ نقصان اسرائیلی کمان کے لیے قابلِ قبول ہے۔
مثلاً اسرائیلیوں کو سات اکتوبر کے حملے کے ایک اہم کردار یعنی القسام بریگیڈ کی جبالیہ بٹالین کے کمانڈر ابراہیم بیاری کی تلاش تھی۔اسرائیل نے فون کالز اور گوسپل اور لیونڈر اے آئی ٹولز کی مدد سے اسے ٹریس کر لیا۔مگر جس سرنگ میں ابراہیم بیاری کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی وہ گنجان آبادی میں کثیرالمنزلہ عمارات کے نیچے تھی۔مگر ایک ٹارگٹ کو ختم کرنے کے لیے بلادریغ بمباری کی گئی اور ڈھائی سو کے قریب بے گناہ لوگ ایک ابراہیم بیاری کے بدلے مارے گئے۔ حالانکہ ابراہیم کو کسی اور وقت سرجیکل اسٹرائک کے ذریعے بھی نشانہ بنایا جا سکتا تھا جیسا کہ اسرائیل کرتا آیا ہے۔کیونکہ فلسطینی من حیث القوم اسرائیل کے نزدیک ’’ نیم انسان ‘‘ ہیں۔لہٰذا بے گناہ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں سے زیادہ اہم ٹارگٹ ہے۔یہی سوچ ہے جس کے سبب اب تک ہونے والی باون ہزار ہلاکتوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد ستر فیصد ہے۔ ( جاری ہے )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)