29 C
Lahore
Friday, May 2, 2025
ہومغزہ لہو لہوچارٹر آف ڈیموکریسی - ایکسپریس اردو

چارٹر آف ڈیموکریسی – ایکسپریس اردو


مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف اپنا جارحانہ رویہ ترک کرکے ملک کے مفاد اور جمہوریت کے فروغ کے لیے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کریں اور پی ٹی آئی اپنے بانی کی رہائی کی کوئی شرط رکھنے کی بجائے عدالتوں سے رجوع کرے۔ بانی کی رہائی کا مطالبہ حکومت سے کیا جا رہا ہے جب کہ رہائی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں ہے، حکومت کا رہائی کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں، عدالتوں کا اختیار ہے وہی یہ مسئلہ دیکھ سکتی ہیں، اس لیے بانی پی ٹی آئی اپنا رویہ تبدیل کریں اور چارٹر آف ڈیموکریسی کریں تاکہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکے۔

 یاد رہے بانی پی ٹی آئی نے اپنی پارٹی کے قیام کے بعد 15 سالوں تک ناکامی کا مسلسل سامنا کیا تھا جس کے بعد بعض قوتوں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور لاہور میں پی ٹی آئی کا بڑا پاور شو کرا کر اہم سیاستدانوں کو بانی کے ساتھ ملوایا تھا جس کے بعد بانی اور پی ٹی آئی نے جمہوریت کی کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ ان کا نعرہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت تھی جسے وہ چور، ڈاکو قرار دیتے تھے اور کرپشن ان کا نعرہ تھا۔

انھوں نے کرپشن ختم کرنے کو نہیں بلکہ انصاف کو اپنا منشور بنایا تھا اور دعوے کیے تھے کہ اقتدار کی باریاں لینے والے پی پی اور (ن) لیگ کے سابق وزرائے اعظم ملک لوٹ کر کھا گئے۔ انھوں نے کرپشن سے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں ملک کو مقروض اور مالی طور پر تباہ کیا اور اب تحریک انصاف ملک کا لوٹا گیا پیسہ ان سے واپس لے کر ملک میں واپس لائے گی۔ اس وقت بانی اور ان کے قریبی ساتھی مراد سعید سمیت پی ٹی آئی والوں کا نعرہ تھا کہ وہ ملک کے لوٹے گئے دو سو ارب ڈالر واپس لائی گی جس سے قرضہ بھی اتارے گی اور باقی ملک کے عوام پر لگائے گی کیونکہ وہ لوٹا ہوا پیسہ عوام کا ہے جو ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کیا گیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی تو جنرل پرویز حکومت میں لندن میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے بھی خلاف تھے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہوا تھا جس کو بانی ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کا سی او ڈی قرار دیتے تھے۔

بانی کا سارا زور ماضی میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر تھا انھوں نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک میں جمہوریت کے استحکام تو کیا کبھی جمہوریت کا نام بھی نہیں لیا تھا ان کا زور صرف سابق حکمرانوں کے خلاف تھا۔ بانی کے حامی صحافی اور اینکر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور ملک سے فرار ہو جانے والے ایک یوٹیوبر نے تحریک عدم اعتماد سے بانی کی برطرفی کے بعد برہم ہو کر کہا تھا کہ بانی نے بعض قوتوں کو سابق حکمرانوں کی مبینہ کرپشن کے بارے میں فائلیں تک دکھائی تھیں اور اسی لیے پی ٹی آئی نے سابق حکمرانوں کے خلاف بھرپور مہم چلائی تھی۔

بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعظم بن کر سب سے پہلے سابق حکمرانوں اور ان کے وزیروں اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے رہنماؤں کو نیب سے ملی بھگت کرکے گرفتار کرایا تھا اور ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے تھے کہ انھوں نے سابق صدر، وزرائے اعظم سمیت دونوں پارٹیوں والوں کو جیلوں میں ڈلوایا ہے۔ نیب ہر وہ کام کرتا تھا جو حکومت کہا کرتی تھی۔

تمام مبینہ کرپٹ رہنماؤں کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کے ثبوت پیش نہیں کیے جاتے تھے اور انھیں صرف جیلوں میں رکھ کر بانی خوش ہوا کرتے تھے۔ ان پر جیلوں میں سختی کراتے اور سہولتیں واپس لینے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ بانی ایسے وزیر اعظم تھے جو جمہوریت کی علم بردار قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں سے اکثر غیر حاضر رہتے تھے اور کہتے تھے کہ گرفتار رہنما NRO مانگتے ہیں۔

بانی نے تو اپوزیشن لیڈر بھی اپنا لانا چاہا تھا مگر مجبوراً انھیں شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بنانا پڑا تھا۔ انھوں نے اپنے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو منع کیا تھا کہ گرفتار ان کے مخالف پارلیمنٹ کے ارکان کو اجلاس میں لانے کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں تاکہ وہ جیلوں میں ہی رہیں۔

بانی کے مخالفین نے کبھی ان سے این آر او نہیں مانگا تھا بلکہ عدالتوں سے ضمانتیں اور رہائی حاصل کی تھی جس پر بانی عدالتوں پر بھی برہم ہوتے تھے کہ وہ سزائیں نہیں دے رہیں بلکہ رہا کر دیتی ہیں۔

بانی پی ٹی آئی جمہوری تھے نہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے تھے۔ انھیں بعض قوتوں نے بڑی اچھی توقعات کے ساتھ دوسری پارٹیوں کی مدد سے سلیکٹ کرایا تھا اور اپوزیشن انھیں اسی لیے منتخب نہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم کہتی تھی اور اس لفظ سے چڑ کر بانی وہاں اجلاسوں میں نہیں جاتے تھے جہاں بطور وزیر اعظم جانا ان کی ذمے داری تھی مگر وہاں اپوزیشن کی موجودگی کی بنا پر جاتے ہی نہیں تھے، نہ انھوں نے کبھی اہم ملکی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا پسند کیا وہ کہتے تھے کہ میں اپوزیشن کے ساتھ کیوں ملوں جب کہ وزیر اعظم کا اپوزیشن سے ملنا جمہوری تقاضا ہوا کرتا ہے اور دونوں ہی جمہوریت کا ثبوت ہوتے ہیں۔

بانی کو اب بھی جمہوریت کی نہیں اپنی رہائی کی فکر ہے ان کے نزدیک چارٹر آف ڈیموکریسی کی کوئی بھی اہمیت نہیں بلکہ وہ تو ماضی میں کیے گئے سی او ڈی پر تنقید کیا کرتے تھے تو وہ اب ملک میں جمہوریت کے استحکام کو کیوں اہمیت دیں گے۔ بانی کو جمہوریت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ مداخلت کے ذریعے اپنی فوری رہائی اور اقتدار میں آنا چاہتے ہیں مگر ان کی خواہش پوری نہیں ہو رہی اور منتخب حکومت کو وہ جعلی قرار دیتے ہیں تو چارٹر آف ڈیموکریسی وہ موجودہ حکمرانوں سے نہیں بلکہ چارٹر آف رہائی کہیں اور سے چاہتے ہیں جو موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات