25 C
Lahore
Saturday, May 3, 2025
ہومتعلیم اور صحتموٹاپا اور پیٹ کے گرد چربی مردوں کو بانجھ پن کی طرف...

موٹاپا اور پیٹ کے گرد چربی مردوں کو بانجھ پن کی طرف لے جارہا ہے: ماہرین


پاکستان میں تقریباً 70 فیصد بالغ افراد موٹاپے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں اور اس بڑھتے ہوئے مسئلے کے سنگین اثرات اب مردوں کی جنسی صحت پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ 

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں میں پیٹ کے گرد چربی صرف جسمانی خوبصورتی کا مسئلہ نہیں بلکہ ہارمونل نظام کو شدید متاثر کرنے والی خطرناک حالت ہے، جو رفتہ رفتہ مردانہ ہارمون (ٹیسٹوسٹیرون) کو کم کرکے جنسی کمزوری، بانجھ پن اور مردانہ خصوصیات میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق پیٹ کی چربی ایک ہارمون بنانے والے عضو کی طرح کام کرتی ہے جو “ایرومیٹیز” نامی انزائم خارج کرتی ہے، جو کہ مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کو خواتین کے ہارمون ایسٹروجن میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں مردوں میں جنسی خواہش کم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات سینے پر ابھار (گائنوکومیستیا) بھی بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تھکن، ڈپریشن اور جذباتی عدم توازن بھی جنم لیتے ہیں۔

اینڈوکرائنولوجیٹس یعنی ہارمونل نظام کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں اب زیادہ سے زیادہ ایسے مرد سامنے آ رہے ہیں جن میں پیٹ کی چربی کے باعث ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم ہو چکی ہے اور ان کی ازدواجی زندگی، خود اعتمادی اور ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ اسی تناظر میں حالیہ تحقیق، جو کہ 2024 میں “Lipids in Health and Disease” نامی جریدے میں شائع ہوئی، اس میں “METS-VF” نامی ایک نیا انڈیکس متعارف کرایا گیا ہے جو شکمی چربی کی بنیاد پر مردوں میں جنسی کمزوری اور ہارمونل کمزوری کی پیش گوئی کرتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ METS-VF کی بلند شرح مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون کی سطح میں کمی اور جنسی کارکردگی میں خرابی سے براہِ راست منسلک ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مردوں میں اگر کمر (ویسٹ) 90 سینٹی میٹر (35 انچ) سے زیادہ ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سطح کی شکمی چربی انسولین کی مزاحمت، اندرونی سوزش اور نائٹرک آکسائیڈ کی پیداوار میں کمی کا سبب بنتی ہے جو کہ جنسی عمل کے دوران خون کی روانی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کے نامور اینڈوکرائنالوجسٹ پروفیسر عباس رضا کے مطابق اگر اس کیفیت کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ hypogonadism کی شکل اختیار کر سکتی ہے، جس میں جسم ٹیسٹوسٹیرون بنانا تقریباً بند کر دیتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک قابلِ علاج بیماری ہے اور اسے ذاتی ناکامی نہ سمجھا جائے۔

ان کے مطابق صحیح علاج اور طرزِ زندگی میں تبدیلی سے موٹاپے اور اس کے اثرات کو ریورس کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر عباس رضا کا کہنا تھا کہ علاج کا آغاز روزمرہ زندگی میں تبدیلی سے ہوتا ہے، جس میں 30 سے 45 منٹ کی تیز چہل قدمی، زیادہ پروٹین اور کم شکر والی غذا، پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال، ذہنی دباؤ پر قابو پانا اور مناسب نیند شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق صرف 5 سے 10 کلو وزن کم کرنے سے ہی ٹیسٹوسٹیرون کی سطح بہتر ہو سکتی ہے۔ اب ایسی ادویات بھی استعمال کی جارہی ہیں جو وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں، یہ ادویات بھوک کو کم کرتی ہیں، انسولین حساسیت بڑھاتی ہیں اور چربی جلانے کے عمل کو تیز کرتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دوائیں اچھی شروعات فراہم کرتی ہیں لیکن طویل مدتی کامیابی کے لیے مستقل طرزِ زندگی اپنانا ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایسی ادویات صرف ماہرین کی نگرانی میں ہی استعمال کرنی چاہئیں، تاکہ صحیح اسکریننگ، خوراک کی ترتیب اور فالو اپ کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان میں ابھی تک مردوں میں موٹاپے اور جنسی کمزوری کے باہمی تعلق سے متعلق آگاہی کم ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس موضوع پر کھل کر بات کی جائے اور مردوں کو جلد از جلد طبی مشورہ لینا چاہیے۔ ان کے مطابق یہ صرف ظاہری صورت کا مسئلہ نہیں بلکہ ہارمونی نظام، اولاد کی صلاحیت، ذہنی سکون اور زندگی کے معیار کا معاملہ ہے۔

پروفیسر عباس رضا کا کہنا ہے کہ اگر طرزِ زندگی، خوراک یا دوا سے افاقہ نہ ہو تو آپریشن جیسے آپشنز بھی موجود ہیں، مگر ہر مریض کا علاج انفرادی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں کو اپنی کمر کی پیمائش کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہی ان کی مردانگی، ذہنی سکون اور آئندہ کی نسل کے تحفظ کی ضمانت ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات