حضرت شمس تبریزکا ذکر ہو اور مولانا جلال الدین رومی کا ذکر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں، دونوں ایک دوسرے کے شاگرد بھی تھے اور استاد بھی، دونوں ایک دوسرے کی ذات میں گم تھے۔ شمس تبریز، تبریز میں پیدا ہوئے اور ان کا نام محمد رکھا گیا، والد کا نام علی تھا۔ جب سن شعور کو پہنچے تو ایک دن قرآن پاک پڑھ رہے تھے، جب سورۃ شمس پہ پہنچے تو لفظ شمس پہ انگلی رکھ کر بڑی دیر تک کچھ سوچتے رہے اور سوچتے سوچتے واقعے میں چلے گئے، ہوش آیا تو انگلی بدستور لفظ ’’شمس‘‘ پہ تھی اسی وقت گھر والوں سے کہا کہ ’’آج سے میرا نام شمس ہے، اب مجھے شمس کہہ کر پکارنا ‘‘ لہٰذا تب سے انھیں شمس تبریز کہا جانے لگا۔ ایک بات کی غلط فہمی دورکر دوں، وہ یہ کہ ملتان میں جو شاہ شمس تبریزی کا مزار ہے وہ دوسرے ہیں، شمس تبریز کا مزار قونیہ میں ہے۔
اس بات کی شہادتیں ملتی ہیں کہ حضرت شمس تبریز اپنے ایک شاگرد کے ساتھ ملتان ضرور آئے تھے اور انھوں نے اپنے شاگرد کو آگ لینے کے لیے بھیجا تھا تاکہ گوشت بھونا جا سکے لیکن آگ کسی نے نہ دی اور وہ واپس آگئے، تب حضرت کو جلال آگیا اور انھوں نے سورج کی طرف دیکھ کر کہا ’’ تو بھی شمس، میں بھی شمس ذرا نیچے آ جاتا کہ میں گوشت بھون سکوں۔‘‘ سورج سوا نیزے پہ آگیا، لوگ گرمی سے بلبلا اٹھے اور حضرت کے گرد جمع ہو گئے اور ان کی منت سماجت کرنے لگے کہ سورج کو واپس اس کے مقام پہ بھیج دیں، حضرت شمس تبریز کچھ دن ملتان میں گزار کر واپس قونیہ آگئے، وہیں ان کا مزار ہے۔
مولانا رومی سے حضرت شمس تبریز کی ملاقات کے دو واقعات ملتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک دن مولانا رومی ایک حوض کے کنارے بیٹھے تھے قریب ہی میں چار نہایت اہم اور قیمتی کتابیں رکھی تھیں، حضرت شمس تبریز وہاں آئے تو کتابوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ رومی نے بے اعتنائی سے جواب دیا ’’یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے‘‘ یہ سن کر حضرت شمس نے کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں، رومی پریشان ہو گئے اور شمس تبریز سے کہا ’’ یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ میری نہایت قیمتی اور پرانی کتابیں تھیں جو اب دوبارہ نہیں مل سکتیں‘‘ یہ سن کر حضرت شمس تبریز نے حوض میں ہاتھ ڈالا اور مولانا رومی کی سب سے زیادہ قیمتی کتاب نکال کر مولانا کے ہاتھ میں دے دی جس پر ایک بھی پانی کی بوند نہ تھی، ایک ایک کرکے انھوں نے سب کتابیں حوض سے نکال کر رومی کو دے دیں۔ رومی حیران پریشان کھڑے تھے بولے ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ شمس تبریز نے جواب دیا ’’ یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔‘‘ اس ملاقات نے رومی کی دنیا بدل دی، وہ حضرت شمس تبریز کے مرید ہو گئے اور ان کا قلب روشن ہوگیا، وہ جو ہر وقت ایک بے چینی سی لگی رہتی تھی، اسے قرار مل گیا۔
دوسرا واقعہ ان دونوں کی ملاقات کا کچھ یوں ہے کہ مولانا جلال الدین رومی اپنے شاگردوں کو حوض کے کنارے درس دے رہے تھے کہ اچانک ایک فقیر وارد ہوا اور سامنے آ کر کھڑا ہوگیا، رومی کو تعجب ہوا کہ اس فقیر کو دربان نے اندر کیوں آنے دیا، ابھی وہ یہی سوچ رہے تھے کہ فقیر نے ان کی نایاب کتابوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ’’ ایں چیست (یہ کیا ہے)‘‘ مولانا نے بے پروائی سے کہا ’’ایں قیل و قال است‘‘ (یہ باتیں ہی باتیں ہیں) یہ سن کر شمس نے وہ کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں، مولانا شدت غم سے رو پڑے کیونکہ ان کتابوں میں رومی کے والد کی قلبی و روحانی وارداتوں پہ مشتمل روزنامچے تھے۔
مولانا بہت ناراض ہوئے اور بولے ’’ اے شمس! تو نے یہ کیا کیا، تجھے پتا بھی ہے کہ تُو نے کیا کیا؟‘‘ فقیر یہ سن کر ہنسا اور حوض کے پانی میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک کرکے ساری کتابیں نکال دیں جو بالکل خشک تھیں، تمام طالب علم اور رومی یکدم کھڑے ہوگئے، رومی بولے ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’ یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔‘‘ یہ سنتے ہی مولانا رومی فقیر کے قدموں میں گر پڑے، دونوں اس طرح شیر و شکر ہوگئے کہ جیسے یہ دو بے چین روحوں کا ملاپ تھا۔ مولانا رومی کے دل میں ایک آگ سی جو بھڑکتی تھی وہ فقیر سے گلے ملتے ہی ٹھنڈی ہوگئی اور شمس تبریزکو لگا یہی وہ جگہ ہے جس کے لیے وہ بے چین پھرا کرتے تھے، یہ دو روحوں کا ملاپ تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں عالم اور درویش اس طرح ملے کہ ایک ہوگئے۔ زبانی روایات کے مطابق دونوں ہستیاں دنیا و مافیہا سے بے خبر گھنٹوں باتیں کرتے رہتی۔ یہ باتیں کیا ہوتی تھیں کوئی نہیں جانتا، یہ ایک طرح کی چلہ کشی کہا جاتا ہے، چلے بھی جاری رہے اور معمول کی ملاقاتیں بھی، جس کا عرصہ مہینوں پر نہیں بلکہ ساڑھے تین برسوں پہ محیط ہے۔
اس وقت جلال الدین رومی کی عمر پینتیس برس اور حضرت شمس تبریزکی پچپن اور ساٹھ کے درمیان تھی۔ بڑی عمر والے نے محسوس کیا کہ لوگوں خصوصاً شاگردوں کو یہ صورت حال ناگوار ہو رہی ہے۔ رومی کے بیٹوں کو بھی یہ صورت حال اچھی نہیں لگ رہی تھی، لیکن مولانا رومی کی کیفیت اس وقت امیر خسرو والی تھی جو حضرت نظام الدین اولیا کے درمیان تھی۔ اس لیے شمس جس طرح آئے تھے اسی طرح خاموشی سے واپس چلے گئے۔ شمس تبریز کی بیوی کیمیا خاتون ایک صبر کرنے والی اور فہمیدہ عورت تھیں، شادی سے پہلے محلے کی عورتوں نے انھیں شادی کے بارے میں بری طرح ڈرا دیا تھا، لیکن شمس تبریز نے انھیں آہستہ آہستہ بہت کچھ سکھا دیا اب وہ عالم کی روح سے واقف ہوگئی تھیں، میاں بیوی گھنٹوں علمی و روحانی باتیں کرتے۔
شمس تبریز کے مزار کے ساتھ ایک مسجد اور پارک بھی ہے۔ ایک انگریز مصنف کے مصداق حضرت شمس کا مزار قوی (Khoi) میں ہے مگر زیادہ تر مغربی مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ شمس تبریزکا مزار قونیہ میں ہے۔ شمس تبریز کے جانے کے بعد رومی بے چین ہو گئے۔ وہ اضطراب اور رنج میں گھومتے رہتے تھے۔
اسی جگہ آج رقص درویش ہوتا ہے جو رومی کے اضطراب کا مظہر ہے۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر ملی کہ شمس کو دمشق اور اس کے گرد و نواح میں دیکھا گیا ہے۔ مولانا نے اپنے بیٹے سلطان ولاد کو شام کی جانب روانہ کیا، سلطان ولاد شمس تبریز کو واپس لانے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک مرتبہ پھر دونوں ملے نہ معانقہ ہوا، نہ مصافحہ ہوا، دونوں ہی ایک دوسرے کے قدموں میں گر پڑے۔ پتا ہی نہ چل سکا دونوں میں کون چھوٹا ہے کون بڑا۔ کون محب ہے کون محبوب، کون مرید ہے کون مرشد۔ یہ بھی کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ دو جسموں کا ملاپ تھا یا دو روحوں کا۔ شمس تبریز کا نکاح قونیہ ہی میں کیمیا خاتون سے پڑھوا دیا گیا تاکہ پاؤں میں زنجیر پڑے اور وہ قونیہ میں مستقل قیام کر لیں۔ رومی اپنے مرشد سے اس سربستہ علم طریقت کا حصول چاہتے تھے جو کتابوں میں نہیں ملتا صرف سینہ بہ سینہ منتقل ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف شمس اپنا سب کچھ کسی ایسے عالم بے بدل کے سپر کرنا چاہتے تھے جو اس کا متحمل ہو سکے، لہٰذا یہ ملاقاتیں رنگ لاتیں، ان طویل ملاقاتوں کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ رومی کے بیٹے علاؤ الدین نے شمس کو دھوکے سے مسجد سے باہر بلا کر قتل کر دیا، لیکن زیادہ تر مغربی مصنفین ایسے ہیں جو اس بات کو نہیں مانتے، اگر ایسا ہوتا تو قونیہ میں بھلا کس کا مزار ہے؟
مولانا رومی کا ایک دیوان ہے جس کا نام ہے ’’ دیوان شمس تبریزی‘‘ بہت سے لوگ اسے شمس تبریزکا دیوان سمجھتے ہیں، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ دیوان مولانا رومی کا ہے۔ شمس تبریز کے بارے میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ انھیں کچھ لوگوں نے قتل کر کے ان کی لاش کنوئیں میں ڈال دی تھی جس کا باطنی ادراک مولانا رومی کو ہوگیا تھا، انھوں نے اپنے بیٹے سلطان کو اور ایک درویش کو بلایا، ایک رسی دی اور حکم دیا کہ ان کے محبوب و مرشد کا جسد خاکی کنوئیں سے نکال لاؤ، لہٰذا شمس کو کنوئیں سے نکالا گیا اور انھیں باغ کے ایک کونے میں دفن کیا گیا۔