33 C
Lahore
Thursday, May 1, 2025
ہومغزہ لہو لہویومِ مئی اور مزدوروں کی حالت زار

یومِ مئی اور مزدوروں کی حالت زار


مغربی ممالک میں 16اور17 ویں صدی میں شروع ہونے والے صنعتی انقلاب اور سیاسی شعور کے نتیجے میں مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کا آغاز پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر مشینوں کے استعمال کے نتیجے میں ہوا۔ کارخانوں میں مشینوں کے استعمال سے نہ صرف روزگار کے مواقعے میں تیزی سے کمی ہوئی، بلکہ مخصوص علاقوں میں فیکٹریوں کے قیام سے روزگار کے لیے نقل مکانی بھی ضروری ہو گئی تھی۔ اس موقعے پر غیر یا کم تربیت یافتہ افراد کی بڑی تعداد میسر آجانے سے تنخواہوں میں کمی کا رجحان پیدا ہوا اور مزدوروں کے لیے حالات کار تیزی سے خراب ہونا شروع ہوگئے۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں classical liberalism  اور Laissez-Fair economics جیسے نظریات کو فروغ ملا۔ ان نظریات کی موجودگی میں حکومتوں پر دباؤ بڑھا کہ وہ شہریوں کی معاشی زندگی میں کم سے کم مداخلت کریں اور شہریوں کو اپنی معاشی زندگی میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری دیں۔ نتیجے میں حکومت کی جانب سے کم ہوتی مداخلت کا فائدہ سرمایہ داروں نے اٹھانا شروع کیا۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی دوڑ میں مزدوروں کے حالات کار مزید خراب ہوگئے جس کے نتیجے میں مزدوروں کی زندگیاں بری طرح سے متاثر ہونا شروع ہوگئیں۔

اسی پس منظر میں کارخانوں اور صنعتوں میں کام کرنے والے افراد کے حالات کارکو بہتر بنانے اور ان کے استحصال کو روکنے کے لیے مزدوروں کی جانب سے مختلف تحریکوں کا آغاز ہوا۔ محنت کش طبقات میں مارکس ازم اور سوشل ازم کے نظریات مقبول ہوئے۔ دونوں تحریکوں میں سرمایہ داروں کے ہاتھوں مزدوروں کا استحصال روکنے، معاشرے میں آجر اور اجیر کے حقوق و فرائض کے درمیان توازن پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی علاقوں یا شہروں میں مزدوروں کے درمیان اتحاد یعنی یونین سازی کی اہمیت اجاگر ہوئی۔

محنت کشوں نے یونین سازی کے ذریعے اجتماعی قوت حاصل کی اور کام کے مقامات پر اوقات کار کو کم کرنے، معاوضوں میں اضافہ کرنے، حالات کار کو محفوظ اور سازگار بنانے، بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات کے حصول کے لیے مشترکہ کوششوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ بیشتر انجمنیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئیں۔ برطانیہ میں 1830 میں جان ڈوہرٹی نے پہلی مزدور یونین National Association for the Protection of Labour قائم کی۔ اس یونین کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین سال کی مختصر مدت میں برطانوی پارلیمنٹ نے فیکٹری ایکٹ کی منظوری دے دی۔

اس ایکٹ کے تحت کارخانوں میں 9 سال سے کم عمر افراد سے کام لینے پر پابندی عائد کردی گئی جب کہ 9 سے 13سال کی عمر کے افراد کو صرف 8 گھنٹے کے کام تک محدود کردیا گیا۔ اسی طرح 14 سے 18 سال کی عمر کے افراد کو 12 گھنٹے سے زائد محنت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان تمام پابندیوں کا مقصد محنت کشوں کی صحت کو کام کی زیادتی کے اثرات سے محفوظ رکھنا تھا۔ امریکا کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے حالاتِ کار سب سے زیادہ خراب تھے۔

مزدوروں سے 20 سے 22گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انتہائی کم اجرت دی جاتی تھی۔ ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ شکاگو کے مزدوروں نے کام کے اوقات کم کرنے کی جدوجہدکا آغاز کیا۔ مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ کام کے اوقات کو 8 گھنٹے تک محدود کیا جائے۔ یکم مئی 1886 کو شکاگو کے مزدوروں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاجی مظاہرہ کا اعلان کردیا۔ یکم مئی 1886کو مارکیٹ اسکوائر پر مزدوروں کی پر امن ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس ریلی کا مقصد 8گھنٹے کام کے مطالبے کی حمایت تھا۔ ریلی میں ہزاروں مزدور اور محنت کش افراد شریک تھے۔ ریلی کے دوران کسی نامعلوم فرد نے موقعے پر موجود پولیس افسران پر دستی بم اچھال دیا۔

دستی بم کے دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا اور متعدد زخمی ہوگئے۔ پولیس مشتعل ہوئی تو اہل کاروں نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین بھی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ مارکیٹ اسکوائر پر بم دھماکے کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے بڑی تعداد میں مزدور رہنماؤں کو گرفتارکیا، ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور ان میں سے کئی ایک کو سزائے موت اور متعدد کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ عالمی سطح پر مزدوروں نے واقعے کی مذمت کی اور نہتے مزدوروں پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی گئی۔

1889میں انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس نے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کی حیثیت سے منانے کا اعلان کیا۔ اس دن کو مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے کی جدوجہد کے عالمی استعارے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ شکاگو کے مزدور رہنماؤں نے ریاستی سزاؤں، جبر اور بے پناہ دباؤ کا سامنا کیا لیکن بالآخر ریاست نے مزدوروں کا 8 گھنٹے کام کا مطالبہ منظور کر لیا۔

 برصغیر ہندوستان میں سیاسی جماعتوں کے قیام کے بعد مزدور یونین قائم ہونے لگیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بیرسٹر محمد علی جناح خود مزدور یونین سے وابستہ تھے۔ انھوں نے انگریز دور میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع قانون بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض، فضل الٰہی چوہان اور ڈاکٹر مالک وغیرہ نے مزدور یونین کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ جب پاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (I.L.O) کے منشور پر دستخط کیے تو عظیم شاعر فیض احمد فیض کو آئی ایل او کے بورڈ میں نامزد کیا گیا۔

سابق صدر ایوب خان کے دورِ اقتدار میں Unfair Labor Practice کا قانون نافذ ہوا۔ کراچی میں 1962میں مزدور تحریک کے مطالبات کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بیہمانہ استعمال ہوا ۔ جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں ایئر مارشل نور خان نے ایک بہتر جامع لیبر پالیسی نافذ کی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئے قوانین کے نفاذ کا وعدہ کیا تھا۔ جب 1971کے آخر میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 1972میں جامع مزدور اصلاحات کیں۔ ان اصلاحات کے تحت بنائے گئے قوانین سے مزدوروں کو بہت سی مراعات حاصل ہوئیں مگر بھٹو حکومت نے کراچی اور لاہور کی مزدور تحریک کو کچلنے کے لیے فاشسٹ حربے استعمال کیے جن کا فائدہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو ہوا۔ اس دور سے ہی مزدور تحریک کمزور ہونا شروع ہوگئی۔ قانونی طور پر قائم کی گئی لیبر کورٹس بے اثر ہوگئیں۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میں مزدور تحریک کمزور ہوگئی مگر آجروں نے مزدوروں کے استحصال کے نئے طریقے رائج کیے۔ اب کنٹریکٹ سسٹم اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ عام سی بات بن کر رہ گئی۔ مزدوروں اور وائٹ کالر مزدوروں کے اوقاتِ کار 10 سے 12 گھنٹے ہوگئے۔ آصف جاوید مزدوروں کے حقوق کا علم بردار تھا۔اس نے اپنے ادارے میں یونین بنائی۔ اسے 2015میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس مزدور نے لیبرکورٹ اور صنعتی تعلقات کے قومی کمیشن (NICP) میں مقدمات دائرکیے۔ ان دونوں عدالتوں نے کمپنی کو حکم دیا کہ اسے اپنے ساتھیوں سمیت ملازمت پر بحال کیا جائے لیکن کمپنی نے ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا‘وہ کئی سال تک اپنے مقدمہ کی پیروی کرتا رہا مگر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ ہوا۔

آصف جاوید بے روزگاری سے اتنا پریشان ہوا کہ اس نے اپنے آپ پر پٹرول چھڑک کر خود کو جلادیا۔ وہ کئی دن تک اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہ کر زندگی کی بازی ہارگیا۔ آصف جاوید کی دردناک موت کی خبر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔ پنجاب اسمبلی کی لیبر اور ہیومن ریسورس کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین و رکن صوبائی اسمبلی امجد علی جاوید نے آصف جاوید کی موت کا نوٹس لیا، یوں امجد علی جاوید کی کوششوں سے کمپنی نے مرحوم کی دو بیواؤں کو مجموعی طور پر 7.5 ملین کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کی مگر یومِ مئی کے دن یہ سوال اہم ہوگیا کہ اس ملک کے ہر مزدور کو اپنے بچوں کو معاوضہ دلانے کے لیے خود سوزی کرنی پڑے گی؟



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات