33 C
Lahore
Thursday, May 1, 2025
ہومغزہ لہو لہومزدوروں کا عالمی دن: اسلامی تعلیمات اورعصرِ حاضر

مزدوروں کا عالمی دن: اسلامی تعلیمات اورعصرِ حاضر


محنت انسان کی فطرت اور بقا کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ترقی یافتہ معاشروں کی بنیاد محنت کش افراد کے خونِ جگر سے استوار ہوئی ہے۔ یکم مئی کو دنیا بھر میں ’مزدوروں کا عالمی دن‘ منایا جاتا ہے تاکہ ان افراد کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے جو خاموشی سے معاشروں کو حرکت میں رکھتے ہیں۔ یہ دن محض ایک تاریخی واقعہ کی یادگار نہیں، بلکہ ایک عہد ہے کہ مزدوروں کے حقوق، عزت اور فلاح کو یقینی بنایا جائے۔

جہاں مغرب میں یہ دن شکاگو کے واقعے کی بنیاد پر منایا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں مزدور کے حقوق کو نہ صرف واضح طور پر بیان کیا گیا بلکہ ان کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخی بنیاد، مغرب میں حقوق کی تحریک اور سب سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت کشوں کے مقام اور حقوق پر تفصیلی گفتگو کی جائے گی، تاکہ ایک باوقار اور منصف معاشرے کی تعمیر میں رہنمائی حاصل کی جاسکے۔

1۔ تاریخ:

دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو ’مزدوروں کا عالمی دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ابتدا انیسویں صدی کے اختتام پر ہوئی جب مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے تک محدود کرنے کےلیے پُرزور تحریکیں چلائیں۔ 1886 میں شکاگو کے مقام پر مزدوروں کا ایک پرامن مظاہرہ پولیس کے جبر کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں کئی مزدور شہید ہوگئے۔ اس واقعے کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کرنا، ان کے حقوق کو تسلیم کرنا اور انھیں معاشرے میں عزت دینا ہے۔

2۔ انسانی تہذیب کا ستون: ’مزدور‘

تاریخ انسانی میں محنت کش طبقے کی حیثیت ہمیشہ کلیدی رہی ہے۔ انسان جب سے زمین پر آیا ہے، تب سے وہ اپنی بقا اور ترقی کےلیے محنت کرتا آرہا ہے۔ زراعت ہو یا صنعت، تجارت ہو یا تعمیرات، ہر شعبہ زندگی میں مزدور کی محنت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال میں محنت کشوں کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔ بڑے بڑے محلات، سڑکیں، پل، اور فیکٹریاں مزدوروں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ قدیم عمارات کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ ’فلاں بادشاہ‘، ’فلاں حکمران‘ کی یادگار ہے، لیکن کبھی ہمارے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ اسے ابتدا سے اختتام تک لانے والے تہذیب کے اہم ترین ستون ’مزدور‘ ہیں۔

دنیا میں جتنی بھی تاریخی باقیات ہیں، ہم نے انھیں بادشاہوں اور حکمرانوں سے تو منسوب کیا ہی ہے، لیکن کبھی ان کے بنانے والوں کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہی بدقسمتی ہے کہ ہم نے کبھی ان معماروں کو نہیں سراہا، اسی وجہ سے یہ محنت کش طبقہ ہمیشہ سے معاشرتی اور معاشی استحصال کا شکار رہا ہے۔

3۔ مزدوروں کے حقوق کی تحریک: ’مغرب کا سفر‘

مغرب میں صنعتی انقلاب (اٹھارویں اور انیسویں صدی) کے بعد مزدوروں کی حالت بدترین ہوگئی تھی۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد کو طویل اوقات کار، کم اُجرت، اور صحت کے غیر محفوظ حالات میں کام کرنا پڑتا تھا۔ خواتین اور بچوں کو بھی سخت کاموں میں لگادیا جاتا تھا۔ ان غیر انسانی حالات کے خلاف مزدوروں نے مختلف تنظیمیں بنائیں، ہڑتالیں کیں، اور آخرکار کئی ملکوں میں محنت کشوں کے حقوق کےلیے قانون سازی ہوئی۔

تحریک کا نتیجہ: اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے ذاتی زندگی کا اصول۔ آج کئی مغربی ممالک میں مزدوروں کے لیے بہترین سہولیات اور حقوق موجود ہیں، تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کا بنیادی ستون یعنی مزدور اب بھی پستی کی جانب گامزن ہے۔

4۔ اسلامی تعلیمات میں محنت کی فضیلت

اسلام ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں محنت کی حقیقت اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: ترجمہ ’’اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ (النجم: 39)۔

اسلام میں محنت صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک نیکی اور عبادت ہے۔

اسلام میں مزدور کو ایک باعزت مقام دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔‘‘ (ابن ماجہ)

قرآن و سنت میں دیے گئے حقوق سے جو مفاہیم نکلتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:

•    اجرت کی بروقت ادائیگی: تاخیر گناہ ہے۔
•    کام کی نوعیت واضح ہونی چاہیے: تاکہ کوئی دھوکا یا ظلم نہ ہو۔
•    اوقات کار کی زیادتی سے اجتناب: اسلام اعتدال کا حکم دیتا ہے۔
•    جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھنا: مزدور پر ایسا بوجھ نہ ڈالا جائے جو اس کی استطاعت سے باہر ہو۔
•    عزت و احترام: مزدور کو ذلیل کرنا یا کمتر سمجھنا حرام ہے۔

اسلامی تعلیمات میں انسان کی عزت و وقار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین نے مزدوروں کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں جب بیت المال کے نظام کو منظم کیا گیا، تو وہاں باقاعدہ اُجرتیں مقرر کی گئیں، ساتھ ہی مزدوروں کی صحت، آرام اور حقوق کا خیال رکھا گیا۔

5۔ اسلامی معیشت اور تقسیمِ دولت

اسلامی معیشت کا تصور محض دولت کی پیداوار پر نہیں بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے۔ قرآنِ مجید میں آتا ہے، ترجمہ ’’تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان (ہی) گردش کرنے والی نہ ہوجائے‘‘ (الحشر، 07)۔ یعنی دولت جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب، غریب تر، لیکن اسلام نے اس کے بالکل برعکس بات کہی یعنی دولت کی منصفانہ تقسیم، صرف امیروں کےلیے ہی نہیں سب کچھ، بلکہ تمام افراد کےلیے دولت ہے۔

اگر دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، تو مزدور کو جو فوائد حاصل ہوں گے، وہ کچھ اس طرح کے ہوں گے:

•    زکوٰۃ، صدقات، فدیہ، کفارہ جیسے ذرائع سے دولت کا بہاؤ نیچے تک یعنی مزدور تک پہنچے گا۔
•    سود کی ممانعت مزدوروں کا استحصال نہیں ہوگا۔
•    حکومت۔ تعلیم، صحت، اور رہائش جیسی سہولیات مہیا کرنے پر پابند ہوگی۔

اسلامی معیشت میں محنت کش طبقے کو ترقی کے مواقع، فنی تربیت، اور مالی تحفظ دینا حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ اگر اسلامی معاشی اصولوں کو صحیح معنوں میں نافذ کیا جائے تو معاشی ناہمواری کا خاتمہ ممکن ہے۔

6۔ موجودہ دور میں اسلامی دنیا کا کردار

اگرچہ اسلامی تعلیمات واضح اور جامع ہیں، مگر بدقسمتی سے آج مسلم دنیا میں مزدوروں کے ساتھ وہ حسنِ سلوک نہیں کیا جاتا جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ کئی ممالک بطورِ خاص پاکستان میں:

•    مزدور طویل گھنٹوں تک کام کرتے ہیں، مگر اُجرت ناکافی ہوتی ہے۔
•    صحت اور تحفظ کے انتظامات ناقص ہوتے ہیں۔
•    خواتین مزدوروں کو مزید مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
•    بچوں سے مشقت لی جاتی ہے جو سراسر ظلم ہے۔

7۔ عالمی یومِ مزدور: جشن یا ’سوچنے کا دن‘!

کیا مزدوروں کا عالمی دن صرف ایک تعطیل کا دن ہے یا ایک سنجیدہ سوچ کا موقع؟ ہمیں اس دن خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ:

•    کیا ہم نے اپنے معاشرے میں مزدور کو عزت دی؟
•    کیا ہم ان کی اجرت بروقت ادا کرتے ہیں؟
•    کیا ہم نے ان کے بچوں کےلیے تعلیم اور ان کےلیے صحت کا بندوبست کیا؟

ان سوالا ت پر حکومتِ وقت کو غور کرنا چاہیے کہ آیا، حکومت نے مزدور طبقے کے لیے کچھ کیا بھی یا صرف اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس بارے میں حکومت کو صرف غور و فکر کرنے کی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر مزدوروں کےلیے کچھ کرنے کے بھی ضرورت ہے۔ 

8۔ تجاویز:

اسلام نے مزدور کو معاشرے کا باعزت رکن قرار دیا ہے۔ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ:

•    اسلامی تعلیمات کو لیبر پالیسیز میں شامل کیا جائے۔
•    علماء، اساتذہ اور میڈیا مزدور کے حقوق پر روشنی ڈالیں۔
•    مزدوروں کی تعلیم، صحت اور سوشل سیکیورٹی پر خاص توجہ دی جائے۔
•    حکومتی اور نجی ادارے مزدور دوست پالیسیز اپنائیں۔

مزدور کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور ترقی کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی محنت کے بغیر کسی بھی قوم کی اقتصادی ترقی اور سماجی استحکام کا تصور ممکن نہیں۔ اسلام نے جہاں محنت کو عبادت کا درجہ دیا، وہیں مزدور کے حقوق کو لازمی، مقدس اور غیر متنازع حیثیت عطا کی۔ نبی کریم ﷺ کے فرامین اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرہ مزدور کی عزت، راحت، اور تحفظ کو اولین ترجیح دیتا ہے۔

موجودہ دور میں جب مزدور استحصال، غربت اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان سمیت تمام ممالک اپنی پالیسیوں، قوانین اور طرزِ حکمرانی میں مزدوروں کے حقوق کو عملی طور پر نافذ کریں، تاکہ ایک مزدور کو اس کا جائز مقام، بروقت اُجرت، تحفظ اور ترقی کے مساوی مواقع میسر آسکیں۔ صرف تقریریں، سیمینارز اور تعطیلات نہیں بلکہ عملی اقدامات ہی اس دن کا حقیقی حق ادا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات