27 C
Lahore
Thursday, May 1, 2025
ہومغزہ لہو لہوذمے دار بھارت ہوگا - ایکسپریس اردو

ذمے دار بھارت ہوگا – ایکسپریس اردو


واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (ڈبلیوآر آئی) کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جن میں بڑے ممالک بھی شامل ہیں، جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ چلی سے لے کر میکسیکو تک اور افریقہ سے لے کر جنوبی یورپ تک آبی مسائل میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبورکر دے گی اور اس کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک کے درمیان کشیدگی، سیاسی عدم استحکام اور جنگی ماحول پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

آج کی دنیا میں کم و بیش 68 کروڑ سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جب کہ سوا ارب کے قریب انسان خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی2.6 ارب کے لگ بھگ افراد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو شدید آبی مسائل کا شکار ممالک قرار دیے جا چکے ہیں۔

آبی مسائل کے حوالے سے مشکل ترین حالات کا مشرق وسطیٰ کے درجن بھر ممالک کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کو بھی شدید آبی مسائل سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ انڈیا کے حوالے سے خاص طور سے یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ اسے پانی کے استعمال اور اس کی مینجمنٹ کے حوالے سے انتہائی اہم چیلنجز کا سامنا ہے جوکہ اس کی عوامی صحت اور اقتصادی ترقی سمیت ہر چیز پر اثرانداز ہوںگے۔

مذکورہ تحقیق کے مرکزی محقق نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ڈیٹا کے ساتھ کام کرتے ہوئے میری کوشش ہوتی ہے کہ نمبروں کے نتائج کے سلسلے میں غیر جانبدار رہوں مگر مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ انڈیا میں حالات کتنے خراب ہیں۔ اس درجہ بندی کے لحاظ سے انڈیا 13 ویں نمبر پر ہے جب کہ پاکستان کا نمبر بارہواں ہے۔ انڈیا کی 36 میں سے 9 ریاستیں انتہائی شدید آبی مسائل کی کیٹیگری میں ڈالی گئی ہیں۔ ڈبلیو آر آئی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے ایک بڑے شہر چنائی میں جاری پانی کے مسائل یہ بتاتے ہیں کہ انڈیا کو آنے والے دنوں میں کس نوعیت کے آبی مسائل کا سامنا ہوگا جوکہ غیر معیاری واٹر مینجمنٹ کی وجہ سے بڑھتے جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی کی رسد کئی مقامات پر غیر یقینی کا شکار ہو جائے گی، اگر موجودہ صورت حال جاری رہی دنیا کے کچھ بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں 2030تک 24 سے 700 ملین افراد کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ آج کی صورت حال میں جنگ کے عوامل میں سے ایک پانی بھی شمار کیا جانے لگا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں ایک سابق عالمی کمیشن برائے آبی وسائل کے سربراہ نے کئی سال پہلے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں کئی جنگیں تیل کے لیے لڑی گئیں لیکن 21 ویں صدی میں جنگیں پانی کے مسئلے پر لڑی جائیں گی۔

آج ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ آبی مسائل ملکوں کے درمیان جنگ کا جواز پیدا کر رہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال بھارتی حکومت کی جانب سے پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر پاک بھارت آبی معاہدہ سندھ طاس کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا ہے جسے پاکستان کی جانب سے بجا طور پر اعلان جنگ تصور کرنے کے مترادف قرار دیا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے 24 کروڑ افراد کی ’’لائف لائن‘‘ ہے۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں ایک پابند بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ معاہدے کے برخلاف پانی کا بہاؤ روکنے یا موڑنے کی کوشش عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان آزادی کے بعد دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے سالوں پر محیط حکومتی سطح پر مذاکرات کیے گئے۔

پاکستان میں جنرل ایوب خان برسر اقتدار تھے جب کہ بھارت میں جواہر لال نہرو کی حکومت تھی۔ سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں 19 ستمبر 1960 کو عمل میں آیا اور دونوں ممالک کے سربراہان حکومت جواہر لال نہرو اور جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔ جس کے مطابق مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان اور مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کا کنٹرول انڈیا کو دے دیا گیا۔ دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، اس لیے بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔ معاہدے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے ہر دو ممالک کو ایک دوسرے کی رضامندی درکار ہے۔

سندھ طاس کے آرٹیکل 9 کے تحت پاکستان اپنے تحفظات کے اظہار کا پورا حق رکھتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت کئی معاملات پر اختلافات موجود ہیں۔ گزشتہ 65 برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سے زائد مرتبہ جنگ بھی ہو چکی ہے لیکن سندھ طاس معاہدہ اپنی جگہ قائم رہا۔ پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے پہلی مرتبہ سندھ طاس معاہدہ معطل کیا ہے۔ حالانکہ معاہدے کے وقت بھارت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان دریاؤں میں پاکستان میں ان کے بہنے یا بہاؤ میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔

بھارت کی ہٹ دھرمی، ضد، انا اور یکطرفہ اقدام کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے تو پاکستان کو فوری طور پر معاہدے کے ثالث عالمی بینک سے رجوع کرنا چاہیے۔ بھارت کے پاس پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ پاکستان نے بھارت کو پیشکش کی ہے کہ وہ پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات میں شامل ہونے کو تیار ہے۔ درحقیقت بھارت خود مختلف حوالوں سے پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے جس کے مبینہ ثبوت ڈی جی (آئی ایس پی آر) نے میڈیا کے سامنے پیش کر دیے ہیں۔

ادھر مودی سرکار نے بھارتی فوج کو پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے مکمل اختیارات دے دیے ہیں جس سے دونوں کے درمیان جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ امریکا، چین، روس، برطانیہ اور دیگر عالمی قوتوں کو چاہیے کہ وہ بھارت کو جنگی اقدام سے روکیں ورنہ خطے کا امن تباہ ہو جائے گا اس کا ذمے دار بھارت ہوگا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات