کچھ عجیب سی صورت حال ہے، یہاں ہمارے صوبے کے پی کے عرف خیر پخیر میں یہاں جو خبریں…سوری… خبریں تو اب ہوتی نہیں ہیں ’’بیانات‘‘ ہوتے ہیں ، اس کے مطابق پنجاب کی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز بہت ہی’’ مشکل‘‘ حالات میں ہیں، دکھی بھی ہیں، پنجاب حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، خزانہ خالی ہے، حکومت کے اوسان ٹھکانے نہیں ہیں ، آنکھوں سے آنسوؤں کے فوارے چھوٹ رہے ہیں جس طرح کارٹونوں میں بہتے ہیں یا بقول اقبال بانو۔
شکست حسن کے منتظر بھی ان آنکھوں نے دیکھے ہیں
کوئی یوں سن رہا تھا رات مجھ سے میرا افسانہ
کبھی شرمندہ شرمندہ کبھی نم دیدہ نم دیدہ
لیکن ہم خیبرپختونحوا والے ان خبروں، بیانوں پرکیسے یقین کریں کیونکہ محترمہ مریم نواز تو اس وقت بھی ’’خاتون آہن ’’ بن کر کھڑی تھیں جب ان کے خاندان،حکومت ،گھر، پارٹی سب کچھ پر ’’شہاب ثاقب‘‘ گرا تھا اورچاروں طرف بلکہ شش جہات سے گولہ باری ہورہی تھی، وہ تب بھی نہ کانپی تھیں نہ لرزی تھیں اور نہ گھبرائی تھیں بلکہ ڈٹ کر کھڑی تھیں لہٰذا آج ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اتنی شکستہ دل ہوگئی ہیں، گرفتہ دل ہوگئی ہیں،گھبرا گئی ہیں ۔
یہ موضوع ایسا ہے کہ جی تو چاہتا ہے کہ فوراً بیانات کے اس معمہ کو ہاتھ میں لے کر تحقیق کا ٹٹو دوڑائیں لیکن فاصلے بہت ہیں اورہم ٹھہرے بڈھے ضعیف ۔ اورہماری استطاعت ہم سے بھی ضعیف ہے جب کہ تحقیق کا ٹٹو بھی مارے مہنگائی کے پنجر پنجر ہورہا ہے ورنہ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں جاکر اصل صورت حال معلوم کرکے آتے کہ پنجاب ’’ماتم کدہ‘‘ کیوں بن گیا ہے اورہماری بدقسمتی سے ہمارے پاس وہ جام جم اورآئینہ جہاں نما بھی نہیں ہے جو خیبر پختونخوا کے معاونوں اورمشیروں کے پاس ہے جو نہ صرف ’’دوردرشن‘‘ ہیں بلکہ فیوچر درشن بھی ہیں اورسب سے بڑی بات یہ کہ ان کے ناموں کے ساتھ اتنی ڈگریاں اور القابات وخطابات ہیں تو بلاوجہ نہیں ہوں گے ۔
پہلے صرف ایک ذریعہ تھا، علامہ ڈاکٹر پروفیسر، عالم کامل ماہرنجوم وفلکیات …اوراب یک نہ شد دوشد کہ خزانے کا معاون مشیر بھی اپنے بیانات کا تانگہ دوڑانے لگا بلکہ ’’سہ شد‘‘ کہیے کہ بڑے صاحب نے بھی چیلنج کردیا ہے کہ مجھ سا کوئی ہو تو سامنے آئے، ظاہر ہے کہ چیلنج پڑوس یعنی پنجاب کی طرف سے تھا، فرمایا،کوئی میرے جیسا وزیراعلیٰ بن کردکھائے ‘‘ لیکن کیاکریں ، ہمیں تو اپنی بے بسی اوربے سروسامانی نے وہ چیونٹی بنادیا ،جسے کسی نے پانی کے ایک برتن میں پتھر ڈال کر بٹھا دیا تھا۔کل ملا کر صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ہمارا تجربہ ، یقین اورمعلومات کچھ اورکہہ رہے ہیں اورصوبہ خیرپہ خیر کے چینلات اور اخبارات کے بیانات بلکہ بیانات کا اٹوٹ سلسلہ وار لگاتار اور موسلادھار کچھ اورکہہ رہا ہے۔
کہتے ہیں، افغانستان کے ایک بادشاہ کو ’’دلی‘‘ پر سخت غصہ تھا اور وہ چاہتا تھا کہ دلی کو تیمور اورنادرشاہ کی طرح ہلواڑہ کرکے تاریخ میں اپنانام رقم کرے لیکن بیچارے کو اپنے ریوڑ یعنی لمبے چوڑے ’’حرم‘‘ کی سرپرستی سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔یہ بات ایک اسلحہ ساز کو پتہ چلی تو اس نے آکر’’ شاہ والا ‘‘کو بتایا کہ وہ ایک ایسی توپ تیار کر سکتا ہے جو یہیں سے دلی کی اینٹ سے اینٹ ، پتھر سے پتھر اورآدمی سے آدمی کو نیست ونابود کرسکتی ہے۔ اسے بادشاہ نے فوراً اپنا معاون خصوصی بناکر کام پر لگا دیا، اس نے جو سامان مانگا وہ فراہم کردیا اورمطلوبہ رقومات بھی حوالے کردیں کہ فوراً ایسی توپ بناکر ہماری خدمت میں پیش کرو تاکہ جلد ازجلد اس دلی کو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔
اسلحہ ساز’’ لگے رہو منابھائی ہوگیا‘‘، آخر ایک مدت کے بعد اس نے اعلان کیا کہ توپ تیارہوگئی ہے ۔ بادشاہ نے ایک بڑے جشن کااہتمام کیا تاکہ توپ کامظاہرہ ہرخاص وعام دیکھ سکے ۔مقررہ دن پر ایک طرف شاہی خاندان، وزیران کرام، مشیرعظام اور معاونین دشنام بیٹھ گئے۔ میدان کے بیچ میں کئی ہاتھیوں کی مدد سے وہ عظیم الشان اور بھاری بھر کم توپ لائی گئی اور اسلحہ ساز نے ’’شاہ والا‘‘کی اجازت لے کر ایک خاص ’’ادا ‘‘ سے فیتے کو آگ دکھائی ، اچانک قیامت خیز دھماکا ہوا ،ہرطرف دھواں ہی دھواں پھیل گیا ، ہاتھ کو ہاتھ تو کیا،آنکھ کو آنکھ بھی سجھائی نہیں دے رہی تھی ، ہرطرف قیامت کا شور، آخر کافی دیر بعد دھواں چھٹا تو توپ کا ساراملبہ ادھر ادھر بکھرا ہوا تھا، کچھ لوگ بھی زد میں آگئے تھے لیکن اسلحہ ساز بڑا ہوشیار تھا ، شاہ والا کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوکر بولا ، حضور پرنور ملاحظہ فرمائیے! جب یہاںیہ حال ہے تو دلی پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہوگی۔ جانتا تھا کہ نہ ٹیلی فون تھا، نہ تار، پیدل زمانہ تھا اوردلی سے جب کہیں چار پانچ مہینے بعد خبر آئے گی تو یہاں سے رفوچکر ہوچکا ہوں گا ۔
ہماری بھی وہی حالت ہے نہ جام جم رکھتے ہیں، نہ آئینہ جہاں نما، تو کیسے بتائیں کہ وہاں مریم نواز حکومت کا ’’دلی‘‘ کس حال میں ہے ۔ اسلحہ سازوں نے جو کچھ کرنا تھا، وہ کرلیا اورکررہے ہیں کہ ان کاکام یہی ہے ،دراصل وہ اپنے صوبہ خیر پخیر کو بتیس چاند لگا چکے ہیں، ہرطرف امن وامان ، عدل وانصاف کا دوردورہ ہے ، شیر اوربکری منرل واٹر کی ایک بوتل میں اپنا اپنا اسٹرا ڈال کر پی رہے ہیں، بچے پارکوں میں چمڑے کی گیندوں کے بجائے لال وجواہر اورسونے کی گیندوں سے کرکٹ اور ہاکی کھیل رہے ہیں ، بلے اورہاکی سٹک چاندی کے ہیں ۔ دراصل ہمیں محترمہ مریم نواز سے ہمدردی اس لیے ہے کہ کسی زمانے میں ان کے والد میاں نواز شریف سے یاد اللہ تھی، وہ تو شاید بھول گئے ہوں کہ ان کے یاد رکھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن ہمارے پاس صرف یادوں کے سوا اورکچھ ہے ہی نہیں ۔ چنانچہ صرف دعا ہی دے سکتے ہیں ،اﷲ محترمہ مریم نواز کو امان میں رکھے ، سارے دکھ درد دورہوں اورحاسدوں کی بدنظر، بدنیت اوربد گوئیوں سے بچائے رکھے ۔
جو لوگ اپنا قد نہیں بڑھا سکتے وہ دوسروں کا قد گھٹانے میں لگ جاتے ہیں ۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے