پی آئی اے میں جانے سے پہلے میں نے ملٹری سیکریٹری کے ذریعے وزیراعظم کے ساتھ الوداعی ملاقات کے لیے باقاعدہ وقت مانگا، لہٰذا ایک آدھ دن کے بعد میری باقاعدہ (formal) ملاقات طے ہوگئی یعنی پرائم منسٹر کے روزانہ کے پروگرام میں بھی اس کا اندراج ہوا۔ وزیراعظم کے ساتھ میری ملاقات یکطرفہ (monologue) ہی رہی۔ پولیس کا ایک جونیئر افسر پرائم منسٹر کے دفتر میں ان کے سامنے بیٹھ کر پندرہ منٹ تک سخت اور کڑوی باتیں کرتا رہا اور ملک کا طاقتور وزیراعظم خاموشی اور تحمّل سے سنتا رہا۔ میں نے سب سے زیادہ احتساب کا ذکر کیا کہ اسے ایک تماشا بنادیا گیا ہے اور متعلقہ لوگوں نے اسے ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا ہے، میں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’آپ کی حکومت، پاکستان کے Founding fathers کے وژن سے ہٹ چکی ہے اور ان کے نظریات سے روگردانی کررہی ہے مگر آپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے‘‘۔
نوازشریف صاحب کے حوصلے کی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے سب کچھ سن لیا اور آخر میں مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے صرف تین لفظ کہے کہ ’’بس دعا کریں’’۔ اسٹاف افسری کے دوران میری کئی باتیں اور مشورے نہیں مانے گئے مگر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ وزیراعظم میری دل سے عزّت کرتے تھے۔ میری عدم موجودگی میں وہ لوگوں کے سامنے اس رائے کا اظہار کئی بار کرچکے تھے کہ ’’ذوالفقار چیمہ نے کبھی کوئی ذاتی کام نہیں کہا، کبھی کوئی فرمائش نہیں کی، وہ ایک honourable اور دیانتدار افسر ہے جس بات کو صحیح سمجھتا ہے، صاف صاف کہہ دیتا ہے، لگی لپٹی نہیں رکھتا‘‘۔
پرائم منسٹر کے اسٹاف افسر کے طور پر کام کرنے کا تجربہ بے حد مفید (rewarding) تھا۔ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر امورِ مملکت کس طرح چلائے جاتے ہیں، اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور صوبائی حکومتوں اور ہر سطح کے افسروں کے کام اور کارگردگی کا اوپر سے جائزہ لینے (overview) کا بڑا مفید تجربہ ہوا۔ ملک کے سب سے بڑے عہدیدار کے ساتھ ہوتے ہوئے باقی تمام عہدے چھوٹے لگتے ہیں، بڑے بڑے افسروں کی اصلیّت نظر آجاتی ہے اور کئی بڑے عہدوں پر براجمان چھوٹے لوگوں کی حرکتیں بے نقاب ہوتی ہیں۔ ملک کے وزیراعظم کے ساتھ کام کرکے ایک جونیئر سول سرونٹ کی خوداعتمادی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ وہ غیر معمولی تجربہ پوری سروس میں میرے لیے بہت کارگر ثابت ہوا۔
پی آئی اے میں مجھے جنرل منیجرکا رینک دے کر سیکیوریٹی، انویسٹی گیشن اور vigilance کے تینوں شعبوں کا انچارج بنادیا گیا۔ آرمی کے کئی ریٹائرڈ کرنل اور ائیرفورس کے سابق ائیرکموڈور ہمارے شعبے میں منیجرکے طور پر کام کررہے تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ فوجی افسران ڈسپلنڈ ہونے کی وجہ سے بہت اچھے subordinate ہوتے ہیں۔ پی آئی اے کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے میرا دفتر بھی وہیں تھا۔ چیئرمین شاہد خاقان صاحب ائیر پورٹ کی عمارت کے قریب پی آئی اے کے ‘Midway Hotel’ میں چوتھے فلور پر رہتے تھے۔ انھوں نے اُسی فلور پر مجھے بھی ایک کمرہ الاٹ کردیا، ایک عدد کار بھی مل گئی جو دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر جانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
جمعہ کی شام کو میں کراچی سے سات بجے کی فلائیٹ پر اسلام آباد چلاجاتا اور سوموار کی صبح کو کراچی ہیڈ آفس پہنچ جاتا۔ پی آئی اے میں کہیں بھی جانے کے لیے میرا فضائی سفر مفت ہوتا تھا۔ یہاں مجھے کارپوریٹ کلچر کو اندر سے دیکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کا پہلی بار تجربہ ہورہا تھا جو بہت دلچسپ اور مفید تھا۔ چارج لینے کے دوسرے ہی دن مجھے ایک لفافہ موصول ہوا جس کے مطابق مجھے ایک انکوائری سونپ دی گئی تھی، جس کے واقعات اس طرح تھے کہ کچھ عرصہ پہلے پی آئی اے کی فلائٹ پیرس پہنچی تو عملہ (crew) اپنے ہوٹل چلاگیا۔ اگلے روز واپسی کا وقت ہوا تو باقی عملہ پہنچ گیا مگر دو ائرہوسٹسزغائب تھیں۔ دونوں جہاز پر اپنی ڈیوٹی ادا کرنے نہ پہنچ سکیں جس کی وجہ سے فلائیٹ بہت لیٹ ہوگئی۔ ماضی میں بھی وہ ایک بار ایسی حرکت کرچکی تھیں۔ الزام الیہان کو انکوائری کے سلسلے میں طلب کیا گیا تو وہ پیش ہوگئیں۔ دونوں خوش شکل تھیں، دونوں نے الزام ماننے سے انکار کیا۔ انکوائری افسر اور الزام الیہان کے درمیان سوال وجواب اس طرح ہوئے۔
سوال: تم پر الزام ہے کہ تم ہوٹل میں ہی رہیں اور اپنی ڈیوٹی پر نہ پہنچیں جس کی وجہ سے پی آئی اے کی پرواز میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ تمہاری اس حرکت کی وجہ سے ائیر لائینز کا امیج خراب ہوا ہے۔ اس ضمن میں تمہارا کیا کہنا ہے۔
جواب: سر! میں سوئی رہی تھی، اس لیے لیٹ ہوگئی۔
سوال: بی بی! پی آئی اے حکام کو تمہارے سونے پر اعتراض نہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ معاملا کچھ اور تھا۔ تمہارے ساتھ ایک غیر ملکی تھا۔ جواب: سر! میں اگر کسی فرنچ دوست کے ساتھ ڈنر پر چلی جائوں تو پاکستانی عملے کے لوگ جلتے ہیں اور ایسی ویسی باتیں بنانی شروع کردیتے ہیں، سر! انھیں تو نہ اپنی عزت کا خیال ہے نہ ملک کی عزت کا۔
سوال: مگر تم نے بھی پیرس میں ملک کی عزّت کا جس طرح خیال رکھا وہ تو بڑا انوکھا طریقہ ہے۔ کسی اور ملازم کے بارے میں اگر تم لکھ کر دے دو اور کچھ ثبوت بھی فراہم کردو تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ کیا ماضی میں بھی تم پر ایسا الزام لگ چکا ہے؟
جواب: جی ایک بار پہلے بھی لگا تھا مگر ثابت کچھ نہیں ہوا۔
دوسری ائیرہوسٹس: سر! میں میرا ایسی حرکت کروں تو میرے قبیلے والے ہی مجھے مار ڈالیں گے۔ انکوائری افسر: پیرس میں تمہاری حرکات وسکنات کا تمہارے قبیلے کو کیسے پتہ چل سکتا تھا؟ اس پر وہ خاموش رہی۔
ہم نے پیرس میں اپنے اسٹیشن منیجر سے کہا کہ وہ سارے حقائق معلوم کرکے بھجوائے۔ اُس کی رپورٹ آئی تو موصوف دونوں فضائی میزبانوں کے لیے خاصا نرم گوشہ رکھتے ہیں، بہرحال ہماری رپورٹ پر دونوں کو فضائی میزبانی کے فرائض سے ہٹادیا گیا۔
اسی دوران پتہ چلا کہ آرمی چیف جنرل مشرّف نے کارگل آپریشن شروع کردیا ہے۔ پھر ایک روز پی آئی اے کے اعلیٰ حکّام کی میٹنگ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ بھارت پی آئی اے کے جہازوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ایک بار ہمارے ایک جہاز میں بم رکھنے کی اطلاع بھی آئی، جس پر مجھے ہدایات ملیں کہ پی آئی اے کی پروازوں کی سیکیوریٹی کو یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں مختلف ائرپورٹس پر جاکر مسافروں کے سامان کی چیکنگ کے سسٹم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا ان کی چیکنگ کرنے والی مشینیں تسلّی بخش بھی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ متعلقہ ائرپورٹس کے حکّام کے ساتھ میٹنگز کرکے حفاظتی انتظامات کو فول پروف بنانے کی بھی ہدایات ملیں۔ چنانچہ میں نے کئی دوسرے ائرپورٹس کے علاوہ لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور نیویارک کے جے ایف کینیڈی ائیرپورٹ کا بھی تفصیلی معائنہ کیا۔ ہیتھرو پر تو حفاظتی انتظامات کسی حد تک معقول تھے مگر امریکا میں تو ائیرپورٹ پر سیکیوریٹی کا بندوبست انتہائی ڈھیلا ڈھالا تھا۔ مسافروں کے عزیز اور دوست انھیں الوداع کہنے کے لیے جہاز کے پاس پہنچ جاتے، کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
زیادہ تر ائرپورٹس پر سیکیوریٹی کی ذمّے داری پولیس کے پاس تھی۔ امریکا میں ائرپورٹ پر حفاظتی انتظامات کا ٹھیکہ کسی پرائیویٹ کمپنی کو دیا گیا تھا۔ متعلقہ کمپنی کے حکّام کے ساتھ جب میں مختلف واک تھرو گیٹ چیک کررہا تھا تو دوسرے واک تھرو گیٹ سے گذر کر میں رک گیا اور میں نے اُن کے سامنے اپنی جرابوں میں سے دھات کا ایک آلہ نکال کر دکھایا کہ یہ دیکھیں اسے آپ کے گیٹ detect نہیں کرپائے۔
اس پر وہ خاصے نادم ہوئے۔ ہم اس کمپنی کے کلائینٹ تھے اور اسے سیکیوریٹی مہیّا کرنے پر بھاری فیس ادا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے بھی ان پر خاصی چڑھائی کی۔ بہرحال ناقص انتظامات پر معذرت کرنے کے بعد انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد واک تھرو گیٹ تبدیل کریں گے اور ایسے گیٹ نصب کریں گے جن کی detection کی شرح 90% ہوگی۔ میرے دوروں سے ہر جگہ بڑا واضح میسج چلاگیا کہ پی آئی اے کے حکام ہر ائرپورٹ پر حفاظتی انتظامات خود چیک کررہے ہیں، اس سے تمام سیکیوریٹی کمپنیاں محتاط ہوگئیں۔
(جاری ہے)