کراچی:
پاکستان کی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کی مطلوبہ قیمت نہ ملنے سے کاٹن سیکٹر میں جاری بحران کے باعث کپاس کی کاشت کا مومینٹم نہ بن سکا حالانکہ بیشتر کاٹن زونز میں پانی کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوچکی ہے۔ ان عوامل کے باعث خدشہ ہے کہ کاٹن ایئر 2025-26 کے دوران مقامی ٹیکسٹائل ملوں کو ایک بار پھر اربوں ڈالر مالیت کی درآمدی روئی پر انحصار کرنا پڑے گا۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن اور اپٹما سمیت کاٹن انڈسٹری کے تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم منسٹریل کمیٹی کی سفارشات کے باوجود ایکسپورٹ فیسیلٹیشن اسکیم کا خاتمہ نہ ہونے سے پوری کاٹن انڈسٹری کے تاریخ ساز معاشی بحران میں مبتلا ہے اور اس تناظر میں پی سی جی اے نے آخری امید کے طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کے نام باقاعدہ ایک تحریری اپیل میں ان سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کردی ہے۔
پی سی جی اے کی کوشش ہے کہ مذکورہ مسئلہ حل ہونے سے پاکستان کی کاٹن انڈسٹری دوبارہ پوری استعداد کے ساتھ فعال ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں روئی، سوتی دھاگے اور گرے کلاتھ کی ریکارڈ درآمدات کے باعث اندرون ملک روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں تاریخ ساز کمی کے باعث رواں سال کپاس کی کاشت کم ہونے کے باعث پاکستان کو اربوں ڈالر مالیت کا خوردنی تیل بھی درآمد کرنا پڑے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی بلاول بھٹو زرداری کو کینالز کی تعمیر نہ کرنے بارے واضح یقین دہانیوں کے باوجود سندھ کی بیشتر اہم شاہراہوں پر اب بھی دھرنے جاری ہیں جس سے ملکی زراعت و دیگر شعبوں کو اربوں ڈالر نقصان پہنچنے کے ساتھ ٹیکسٹائل سمیت دیگر برآمدی مصنوعات کے سینکڑوں کنٹینرز گزشتہ دو ہفتوں سے پھنسے ہوئے ہیں، مذکورہ عوامل کے باعث کئی ملین ڈالر مالیت ملکی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ برآمد کنندگان کی تمام نمائندہ تنظیموں نے وزیر اعظم سے ہنگامی بنیادوں مرکزی شاہراہوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے عالمہ سطح پر روئی کی قیمتیں بہتر ہونے کے مثبت اثرات پاکستان میں بھی مرتب ہوئے اور مقامی سطح پر روئی کی ٹریڈنگ میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی جس سے فی من روئی کی قیمت قدرے اضافے سے 17ہزار تا ساڑھے 17ہزار روپے کی سطح پر آگئی۔