پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے ہی دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں ڈیڈ لاک سمیت سیاسی کشیدگی کا ماحول غالب تھا۔لیکن اب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے اور وہاں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی سمیت سفارتی تعلقات شدید متاثر ہوئے ہیں۔
بالخصوص بھارتی رویے میںجہاں سخت کشیدگی کاماحول دیکھنے کو مل رہا وہیں سفارتی سطح پر بھارت نے جو ابتدائی اقدامات یا فیصلے کیے ہیں اس سے ماحول میں اور تلخی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے جوابی اقدامات نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور جنگ و جدل کا ماحول پیدا کردیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلگام کے واقعے کے پانچ منٹ بعد ہی بھارت نے اس دہشت گردی کی براہ راست ذمے داری یا اس کا الزام پاکستان پر ڈال دیا۔واقعہ کے فوری بعد جس طرح سے بھارتی میڈیا یا سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف مہم بغیر کسی ثبوت،شواہد اور دلیل کے چلائی گئی، اس نے بھی بہت سے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
ایک طرف پاکستان مخالف مہم اور دوسری طرف سخت اقدامات ظاہر کرتے ہیں اس حالیہ دہشت گردی کو بنیاد بناکر بھارت مستقبل کے ماحول میں اور زیادہ تلخی یا کشیدگی پیدا کرنا چاہتاہے۔مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی قابل مذمت ہے لیکن اس واقعی کی شفاف اور موثر تحقیقات سے پہلے ہی پاکستان پر الزام ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اپنی اس ناکامی پر پردہ ڈالنے واپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان پر الزامات لگا کر اپنی داخلی ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔
پاکستان پچھلے کئی برسوں سے پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے سے گریز کر رہا ہے۔اس نے ہمیشہ کوشش یہ ہی کوشش کی ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں جو بھی مسائل ہیں اور بالخصوص دہشت گردی جیسے مسائل پر دو طرفہ بات چیت اور تعاون کی مدد سے معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔
پاکستان کو خود بھی بلوچستان اور افغانستان کے معاملات پر بھارت کی مداخلت پر سخت تحفظات ہیں اور وہ ان تحفظات کا حل بات چیت کی مدد سے چاہتا ہے۔لیکن بھارت مسلسل مذاکرات سے انکاری ہے اور جب بھی دو طرفہ مذاکرات کی گفتگو ہوتی ہے تو بھارت اس میں بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتا ہے۔
بھارت نے پہلگام واقع پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے لے کر سندھ طاس آبی معاہدہ یکطرفہ معطل کرنے سمیت جو عاجلانہ اقدامات کیے ہیں وہ ظاہر کرتا ہے بہت سے معاملات پہلے سے طے شدہ کھیل یا اسکرپٹ کا حصہ تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو بنیاد بناکر واہگہ اٹاری سرحد بند،پاکستانیوں کے لیے بھارتی ویزے منسوخ اور آگے کے لیے بند،پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کا حکم،سارک ویزوں کا خاتمہ اور سفر کی اجازت نہ دینا،پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی،بحری اور فضائی مشیر ناپسندیدہ قرار دینے، سفارتی عملہ محدود اور بھارتی دفاعی آتاشی کو واپس بلانے کے فیصلے شامل ہیں۔
بھارت کے یہ تمام فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت مستقبل میں پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کا کوئی بڑا ایجنڈا نہیں رکھتا اور نہ یہ اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے۔جواب میں پاکستان کو بھی سخت ردعمل دینا پڑاجن میں فضائی حدود کی بندش،تجارت کے ویزے معطل،اسی طرح عسکری ایڈوائز ناپسندیدہ قرار دینے،بھارتیو ں کو 48گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم البتہ سکھ یاتری پر یہ اطلاق نہیں ہوگاجیسے اقدامات شامل ہیں۔
اصولی طور پر تو پاکستان اور بھارت کو تعلقات کی بہتری میں ایک ذمے دار کردار کی ضرورت ہے۔ دونوں اطراف سے سیاسی کشیدگی اور جنگ و جدل کا ماحول نہ صرف ان دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ خطہ کی مجموعی سیاست،معیشت و سیکیورٹی کے استحکام کے بھی خلاف ہے۔
بھارت اس خطہ میں ایک بڑا جمہوری ملک ہے اور اس کی بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کے سیاسی استحکام کو ہر سطح پر یقینی بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ بداعتمادی کے ماحول کے خاتمے کو یقینی بنائے۔لیکن بھارت میں نریندر مودی کی حکومت اور اس کے انتہا پسند حمایتی ہمیشہ سے پاکستان کو سبق سکھانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ۔
اس کا عملی نتیجہ حالات میں بہتری کی بجائے پہلے سے موجود کشیدگی کے عمل میں اضافہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔بھارت ایک ابھرتی ہوئی مستحکم معیشت ہے جب کہ پاکستان معاشی استحکام کی جنگ لڑ رہا ہے اور عملی طور پر دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں۔ایسے میں جنگ کا ہونا یا اشتعال انگیزی کو پیدا کرنا دونوں ملکوں کے معاشی مفاد میں نہیں ہے۔اسی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک جنگ سے گریز کریں گے۔
لیکن اگر جنگ سے گریز کرکے محض جنگ و جدل پیدا کرنا،الزام تراشیاں،بداعتمادی اور کشیدہ حالات پیدا کرنا یا ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کو نہ ماننا یا بات چیت کے دروازے بند رکھنا خود تعلقات کو بگاڑنے کے کھیل کے مترادف ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد بھارت میں خود یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس واقعہ سے قبل خود بھارتی فورسز کہاں تھیں۔اسی طرح سیکیورٹی والے علاقے میں سیکیورٹی کی سطحوں کے باوجود یہ حملہ کیسے ہوا اور حیرانگی اس بات پر ہے کہ عملا سیاحوں سے بھرے علاقے میں ایک بھی پولیس اہلکار اور سی آر پی ایف کیمپ موجود نہیں تھا۔
کیا یہ واقعہ ا بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی نہیں تھا اور یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ہماری اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کی وجہ سے موجودہ دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے۔اس لیے اس واقعہ پر خود بھارت کو اپنا داخلی جائزہ اور احتساب بھی کرنا چاہیے۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں بھارت محدود پیمانے پر سرجیکل اسٹرائیک پر غور کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر عملا بھارت حالات کو خراب کرنے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔مگراس کا نقصان یہ ہوگا کہ خود پاکستان کو بھی ایک جوابی ردعمل دینا پڑسکتا ہے ۔اس لیے بھارت کو پاکستان کی مخالفت میں اس طرز کے ایڈونچرز سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان کو موجودہ صورتحال میں اپنے گھر کے داخلی سیاسی ،معاشی اور بالخصوص سیکیورٹی یا دہشت گردی سے جڑے مسائل کو بھی درست کرنے لیے درست حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔بنیادی طور پر دونوں ممالک سمیت عالمی سطح پر ایسے لوگ ،کردار ،ممالک ہیں جو چاہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات بہتر نہ ہوں یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ایجنڈا تعلقات کی بہتری کے خلاف ہے تو ایسے میں دونوں ممالک کو مل کر ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جو جنگ اور کشیدگی سے دونوں ممالک کو دور لے جاسکے۔
بھارت کو اس سوچ اور فکر سے باہر نکلنا ہوگا کہ پاکستان بطور ریاست بھارت کے خلاف دہشت گردوں یا دہشت گردی کی حمایت یا مدد کرتا ہے ۔کیونکہ پاکستان پہلے ہی خود دہشت گردی کا شکار ہے اور ایسے میں دہشت گردی کا فروغ اس کا ایجنڈا نہیں ہوسکتا۔پاکستان اور بھارت کو دہشت گردی کے خاتمہ کے خلاف سنجیدہ کوششوں سمیت مشترکہ میکنزئم کی ضرورت ہے جہاں دہشت گردی کا خاتمہ دونوں ممالک کا مشترکہ ایجنڈا ہوناچاہیے۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ الزام تراشیوں پر مبنی سیاست اور بداعتمادی کا ماحول میں پاکستان بھارت سمیت خطہ کی سیاست کا استحکام ممکن نہیں ہوگا۔اسی طرح بڑے ممالک امریکا اور چین کو بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑے مصالحت کار کا کردار اد ا کرنا ہوگا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت نے خود ہر طرح کے مفاہمت اور بات چیت کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں اور یہ ڈیڈ لاک کو توڑے بغیر دونوں ممالک بہتری کے عمل میں آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔