25 C
Lahore
Monday, April 28, 2025
ہومغزہ لہو لہوزباں فہمی نمبر246کشمیر اور اُردو (حصہ دُوم)

زباں فہمی نمبر246کشمیر اور اُردو (حصہ دُوم)


پچھلی قسط میں خاکسار نے عرض کیا تھا کہ جنگ آزادی ہند 1857ء کے تقریباً ساتھ ساتھ ہی ریاست جموّں و کشمیر میں باقاعدہ اردو شعراء منظرعام پر آنے لگے۔ ان میں اوّلین نام کِشتواڑ کے محی الدین محیؔ کا ہے۔ اثنائے مطالعہ رَدِّتحقیق کا سامنا ہوا تو اِنکشاف ہوا کہ یہ تأثر بھی غلط فہمی پر مبنی ہے۔

اس ضمن میں حبیب کیفوی صاحب (مؤلف ’کشمیر میں اردو‘) کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ کشمیر میں فارسی کے اوّلین مقامی شعراء کی فہرست میں شامل، ممتاز سخنورمحمودگامی (1765ء تا 1855ء ) کو یہ اعزاز محیؔ سے بھی پہلے حاصل ہوچکا تھا۔ اُن کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں جو یقیناً محمودگامی کی عربی وفارسی دانی اور (مادری زبان کشمیری کے بعد) فارسی میں طبع آزمائی کے سبب، کشمیر میں رائج ہونے والی ریختہ گوئی (یعنی دو۔یا۔ دو سے زائد زبانیں ملا کر شعر کہنے) کا بھرپور عکس فراہم کرتا ہے:

اَلمنّۃ للہ کہ میرا یار ا چھا ہے

وَزِ ماہ رخانِ ما من بسیار اچھا ہے

جانانہ زُلیخانہ چو  مستانہ  برآمد

اکھیاں کو جو دیکھوں تو خُمار اچھا ہے

صدپارہ کُند خارہ زِہے تِیر نگاہش

مژگان و دو اَبروئے کمان دار اچھا ہے

بر برگِ گُلِ تازہ عرق دانہ شبنم

در لعل لَبَش گوہر شہوار اچھا ہے

شیریں دو اَنارَش بکنار ِ سمن ِ اُو

پروردہ پئے عاشقِ بیمار اچھا ہے

مستانہ زِاِحوال ِ اسیراں بہ تغافل

درکا ر خُود ہوشیار، وہ سرکار اچھا ہے

از پِیر ِ خِرددوش، شُنِیدیم بہ صد ہوش

محمودؔ بِگو شعر، شکربار ا چھا ہے

خطّے کے ہر علاقے کی طرح، وادی کشمیر میں جنم لینے والے اردو کا یہ رُوپ کسی دوسرے علاقے کے اسلوبِ سخن سے ہرگز مماثل یا متأثر نہیں!

یہاں غیرکشمیری احباب کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ محمود گامی نے کشمیری ادب میں اپنی مثنویات لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، یوسف زُلیخا، محمودغزنوی، ہارون الرشید، شیخ صفان اور شیخ منصور کے ذریعے گراں قدر اضافہ کیا۔ اس طرح وہ ریاست جمّوں و کشمیر میں، بہ یک وقت کشمیری، فارسی اور اردو کے سَرخیل شعراء کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ جرمن مستشرق [Orientalist] کارل برکہارڈ

(Karl Burkhard) نے محمود کی مثنویوں ’لیلیٰ مجنوں ‘ اور ’یوسف زُلیخا‘ کا انتخاب جرمن زبان میں ترجمہ کرکے اُنھیں دیارِمغرب میں رُوشناس کرایا۔ وہ مثنوی اور غزل کے علاوہ لوک صنفِ سخن، ’وچن‘ کے بھی مشہور شاعر تھے۔ کشمیر کی پوری شعری تاریخ میں نند رِشی کے بعد، محمودگامی واحد ایسا شاعر ہے جس کا کلام پسندکے ساتھ ساتھ محفوظ کیا گیا اور اُس کے کلام کے کئی مختلف رُوپ (versions) بھی موجود ہیں۔ محمودگامی کو اپنے معاصرین میں ولی اللہ مَٹُّو سے بہت اُنس تھا، جب ولی ؔ کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوا تو گامی نے اُس کا مرثیہ کہا تھا۔

کشمیر میں اسلام کی آمد کے بعد پندرہویںصدی تک عربی زبان خوب پھلی پھُولی اور اِس میں علمی وادبی خدمات بھی انجام دی گئیں، پھر اِس کی جگہ فارسی نے لی تو اُسے سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ سلطان زین العابدین (1420ء تا 1470ء ) کے عہدحکومت میں فارسی زبان وادب کی خوب ترویج ہوئی اور ’’راج ترنگنی‘‘ کا ترجمہ، اُس کے ملِک الشعراء اَحمد کشمیری نے فارسی میں ’بحرالاسمار‘ کے نام سے کیا۔ اس دورمیں صوفیہ کرام کے سوانح نگاری، قصیدہ ودیگر اصناف میں طبع آزمائی کا سلسلہ جاری ہوا۔ محض مردوں ہی نے فارسی میں شعر نہیں کہے، بلکہ خواتین میں بھی فارسی شعرگوئی کا ذوق عام ہونے لگا۔

چک خاندان کے دور میں یوسف چک خود شاعر اور شاعروں کا سرپرست تھا۔ یہ وہی دور تھا جب شیخ یعقوب صرفی نے اپنی دینی کتب کے ذریعے تبلیغ کا کام بطریقِ احسن انجام دیا۔ مغلوں کے اثرات عام ہوئے تو کشمیر میں بھی تصوف کا نقش کمزور ہوتا چلاگیا۔ چونکہ سردست ہمارا موضوع ’کشمیر اور اُردو‘ ہے ، لہٰذا عربی وفارسی کے باب میں اختصار ہی مناسب ہے۔

ایک کشمیری محقق ڈاکٹر اے آر بیگ نے بجا طور پر ہمارے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اہل کشمیر کی مادری زبان کشمیری ہے، جمّوں میں ڈوگری اور لدّاخ میں لدّاخی بولی جاتی ہے، لیکن اردو، ریاست کے لوگوں کے لیے کوئی غیر یا اجنبی زبان نہیں۔ یہاں کے لوگوں نے، ایک صدی سے زیادہ عرصے سے، اردو زبان کو اَپنی زبان سمجھ کر برتا ہے اور اِس کی تعمیر وترقی میں نمایاں حصہ لیا ہے۔…………اردو زبان کی مُلک گِیر مقبولیت کے نتیجے میں اُنیسویں صدی کے اواخر میں اِسے ریاست میں دفتری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ …………………… حق تو یہ ہے کہ ریاست کی خدمات کا ذکر کیے بغیر، اردواَدب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ ریاست جمّوں وکشمیر نے اردو اَدب کو کئی عظیم المرتبت شاعر اور اَدیب دیے ہیں۔

جنھوں نے اِسے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے توانائی اور وُسعت عطا کی ہے۔ دیا شنکر نسیمؔ، تربھون ناتھ ہجرؔ، رتن ناتھ سرشارؔ، سعادت حسن منٹو، آغا حشر کاشمیری، چراغ حسن حسرتؔ، علامہ اقبالؔ، چکبستؔ، علامہ کیفیؔکے نام اس دعوے کی مستند تصدیق ہیں‘‘۔ یہاں مؤلف موصوف نے کشمیری نسل کے اہل قلم گنوائے ہیں، ورنہ علامہ اقبالؔ معروف معنیٰ میں کشمیری نہیں، پنجابی قرار پاتے ہیں۔ ’’جمّوں و کشمیر میں اردو اَدب۔ سقوطِ ہند سے قبل اور اِس کے بعد‘‘ کے فاضل مؤلف نے مزید کہا کہ ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست جمّوں وکشمیر کے، نوجوان نسل کے شعراء اور اَدیب، ہندوستان کے مشہور اور مستند لکھنے والوں کے دوش بدوش، زبان وادب میں منہمک ہیں اور وہ دھیرے دھیرے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ اردو کے لیے ریاست میں ایک سازگار ماحول ہے‘‘۔

فاضل بزرگ معاصر محقق ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے بجا طور پر لکھا کہ ’’یہ زبان (اردو) ریاست کے تین تہذیبی ولسانی خطّوں یعنی جمّوں، لدّاخ اور کشمیر کے درمیان رابطے کی زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے اور اِسی زبان کے توسط سے ریاست کی مختلف اور متعدد لسانی اِکائیوں کے درمیان تہذیبی، سماجی اور سیاسی رشتوں کے استحکام کی ضمانت فراہم ہوتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ برصغیر کے مختلف علاقوں سے بھی اردو ہی ترسیلی زبان کا کردار اَدا کررہی ہے‘‘۔ (جمّوں وکشمیر میں اُردو اَدب)

یہاں علامہ اقبال کا ایک ایسا نمونہ کلام پیش کرتا ہوں جو غالباً اُن کے دیگر کلام کی طرح مشہور نہیں:

سَو تدابیر کی، اے قوم یہ ہے اِک تدبیر

چشم ِ اغیار میں بڑھتی ہے اِسی سے توقیر

دُرّ ِ مطلب ہے، اخوت کی صدف میں پنہاں

مل کے دنیا میں رہو مِثلِ حُروفِ کشمیر

 کشمیری محقق ڈاکٹر برج پریمی نے وادی میں اردو کے ابتدائی نقوش کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جب مہاراجہ گلاب سنگھ (1846ء تا 1856ء) نے برطانوی مفادات کے پیش نظر، انگریزوں سے کشمیر خریدا ، اور اس طرح ریاست جمّوں وکشمیر کی حکومت کا قیام عمل میں آیا، تب سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر، دہلی اور لاہور کی حکومتوں کے ساتھ ، کشمیر سرکار کے تعلقات بھی قائم ہوئے جس کے نتیجے میں بعض لوگوں کا باہر آنا جانا، ناگزیر ہوگیا۔ عوامی سطح پر بھی وسائلِ معاش کی تلاش اور تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے بھی اِن تعلقات میں اضافہ ہوا۔

اس اختلاط کا نتیجہ یہ ہوا کہ باہر جانے والے سیلانی اپنی فارسی دانی کی بدولت، مروجہ اردو میں شُدبُد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے‘‘۔ برج صاحب کے انکشاف کے مطابق، ڈوگرہ عہد میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے نقیبوں کو بُلاکر دربار میں اس غرض سے تعینات کیا گیا تھا کہ وہ ڈوگرہ دربار میں مُغلئی (یعنی مغلوں جیسا: س اص ) جاہ وجلال کا سا انداز پیدا کریں۔ ان نقیبوں کے ساتھ ساتھ اُن کے خاندان بھی تھے جن کی بول چال کی زبان اردو تھی، اس طرح سے بھی اردو کا عمل دخل شروع ہوا‘‘۔ (جمّوں وکشمیر میں اردو اَدب کی نشو نما)۔

ریاست جمّوں وکشمیر میں اردو کو سرکاری سرپرستی تو حاصل ہوئی مگر اس بابت محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ زبان باقاعدہ سرکاری فرمان کے تحت، کب دفتری اور عدالتی زبان بنی۔ کشمیری محقق جناب محمد نظیر فداؔ (سابق پرنسپل ڈسٹرکٹ جج، سری نگر) نے اپنے جامع تحقیقی مضمون ’’اردو بحیثیت سرکاری زبان۔ ایک نایاب دستاویز‘‘ (مشمولہ جریدہ ’اعلیٰ تعلیم‘بابت جنوری تا مارچ 2018ء) میں ارشاد فرمایا کہ باقاعدہ سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے متعلق مشہور روایات کی کوئی دستاویزی سند نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈوگرہ راج میں جوڈیشل اور نان جوڈیشل ٹکٹوں پر اُردو میں عبارت درج کی ہوئی تو ملتی ہے، لیکن اس بابت کوئی سرکاری حکم نظر نہیں آتا۔ یہاں فاضل مضمون نگار نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ڈوگرہ راجہ، مہاراجہ پرتاب سنگھ نے1885 ء میں زمامِ اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد، محکمہ مال اور عدلیہ میں اردو سرکاری زبان کی حیثیت سے متعارف کروادی تھی۔ اس اہم اقدام میں انھیں اردو کے معتبر اہل قلم بشمول خان بہادر مولوی محمد حسین عارفؔ، سالکؔ، چودھری خوشی محمد ناظرؔ، منشی سراج الدین اور شیخ شاہ محمد کا تعاون حاصل رہا۔ ڈوگرہ حکمراں نے 1890ء میں فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان تسلیم کرلیا تھا، چنانچہ جب 1898ء میں سَر والٹر لارنس کشمیر آئے اور اُنھوں نے اراضی کے بندوبست کا سلسلہ شروع کیا تو اُردو ہی میں اندراج کا حکم دیا ، مگر عدالتوں میں فارسی بدستور رائج رہی۔ مولوی عارفؔ صاحب (جج ہائی کورٹ) اور چودھری ناظرؔ صاحب نے اپنے عدالتی فیصلے اردو ہی میں تحریر کیے۔

جامع مسجد، سری نگر میں وعظ پر پابندی کے فیصلے کے خلاف، میرواعظ احمد اللہ حمدانی کی درخواست کا فیصلہ بھی اردو ہی میں دیا گیا تھا۔ محمد حسین آزادؔ کے شاگرد جج عارفؔ کا تقرر 1906ء میں بطور جج ہائی کورٹ اور وزیرِمحاصل ہوا تو اُنھوں نے 2  اپریل 1907ء کو پنڈِت من موہن کولؔ، گورنر کشمیر کو ایک چِٹّھی (نمبر 789) کے ذریعے اردو کو عدالتی زبان قرار دینے کی استدعا کی تو جواب میں گورنر نے بزبان انگریزی لکھا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں، فارسی کی جگہ اردو کو عدالتی زبان کے طور پر اختیار کرنے کی آپ کی تجویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ (یعنی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا: س ا ص)۔ مجھے سدا آپ کا انتہائی فرماں بردار خام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں ایک لمحے کو ٹھہر کر غور کیجئے کہ

ا)۔ ایک غیرمسلم، صاحبِ اختیار اپنی رعیت میں شامل کسی مسلمان عالم، ادیب اور مُنصِف سے کس عاجزی سے مخاطب ہوا، کیا یہ آج کے دور میں ممکن ہے؟

ب)۔ آج جب اُردو بلاشبہ دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل انتہائی معتبر اور مقبول زبان بن چکی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہماری اپنی عدلیہ، پاکستان میں، اردو کو سرکاری، دفتری وعدالتی زبان کے طور پر نافذ کرنے کے اپنے ہی فرمان پر عمل درآمد کرانے میں تادمِ تحریر ناکام نظر آتی ہے؟ کیا اس کے لیے بھی ’بڑی سرکار‘ کی واٹس ایپ کال کا انتظار ہے؟ (کیا جسٹس جوّاد۔ایس۔خواجہ کا فرمان محض ایک عام سرکاری مراسلہ یا سیاسی بیان تھا جس پر اُن کے دور میں اور مابعد عمل درآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی؟)

خان بہادر مولوی محمد حسین عارفؔ نے 1900ء میں مولانا روم کی 100حکایات کا منظوم اردو ترجمہ اُنہی کی بحر میں کرکے اپنی علمیت کا ثبوت دیا۔ اس کارنامے پر علامہ اقبال نے خوش ہوکر فارسی میں چار اور اُردو میں دو قطعاتِ تاریخ کہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق، علامہ اقبال کی ادبی زندگی میں ایسی کوئی اور نظیر نہیں ملتی۔ علامہ اقبال کا ایک قطعہ کچھ یوں تھا:

روح فردوس میں رُومی کی دعا دیتی ہے

آپ نے خوب کیا اور اِسے خوب لکھا

دردمندانِ محبت نے اِسے پڑھ کے کہا

نقشِ تسخیر پئے طالب ومطلوب لکھا

ہاتف ِ غیب کی امداد سے ہم نے اقبالؔ

            بہرِتاریخِ اشاعت ’سخنِ خوب‘ لکھا: 1318ھ

30 مارچ 1928ء کو فوت ہونے والے، طبیہ کالج (دہلی) میں مدفون مولوی عارفؔ نے نو (۹) کتب تصنیف وتالیف وترجمہ کیں جن میں چار قانون سے متعلق ہیں، ابن بطوطہ کا سفرنامہ، قصیدہ بُردہ شریف کا منظوم اردوترجمہ اور آیت الکرسی کا منظوم اردو ترجمہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ اُن کی تحریرکردہ قانونی دستاویزات بھی بعد کے آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔

کشمیر کی مختلف زبانوں سے اردو کے ارتباط کے موضوع پر باقاعدہ تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔ نمعلوم کیوں اس جہت میں کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب متعدد تحقیقی کتب میں ایسی کوئی کتاب ابھی تک دکھائی نہیں دی جس میں اس موضوع پر کام شامل ہو۔ یہی نہیں بلکہ مجھے آج تک کسی ماہرِلسان یا ماہرلسانیات کی کوئی ایسی کتاب نظر نہیں آئی جس میں اردو کی برّعظیم کے تمام علاقوں میں ہونے والی تشکیل اور اس کے ارتقاء کا بہ یک مقام جائز ہ لیا گیا ہو، چہ جائیکہ موازنہ کیاجائے۔اس کی بنیادی وجہ اُن ماہرین کی اپنی لسانی معلومات کا محدود ہونا ہے۔

ہمارے یہاں تو لوگ باگ فقط انگریزی سے ترجمہ کرکے پوری پوری کتاب لکھتے چلے جاتے ہیں اور اُن کے مداحِین اُنھیں ماہرِلسانیات قرار دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اس مسئلے کا یہ حل ممکن ہے کہ اس باب میں تمام علاقوں کے ماہرین لسانیات کو یکجا کرکے باہمی غورخوض اور بحث مباحثے نیز مشاورت کے بعد، ایسی کوئی کتاب تالیف کی جائے۔ جب یہ جہت سامنے آئے گی تو اُردو کے قدیم ترین ادوار سے آج تک تمام علاقائی زبانوں اور بولیوں سے تعلق اور اشتراک ومماثلت کا باب مزید وسیع اور وقیع ہوجائے گا۔ اس کے بعد دنیا کے دیگر خطّوں کی زبانوں اور بولیوں سے اردو کے اشتراک ومماثلت کے موضوع پر زیادہ کام ہوسکتا ہے۔ خاکسار نے اپنی سی کوشش کی کہ بعض غیرمانوس زبانوں سے اُردو کے تعلق پر ہلکا پھلکا لکھ ڈالا، مگر ظاہر ہے کہ ایک سہیل ؔ کیا کیا کرسکتا ہے، زندگی کے تمام مسائل سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ؟         (جاری ہے )



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات