25 C
Lahore
Saturday, April 26, 2025
ہومغزہ لہو لہودھریکوں کے سائے - ایکسپریس اردو

دھریکوں کے سائے – ایکسپریس اردو


وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی، کچھ مبہم سی باتیں بھی کر رہی تھی۔ میں اسے دلاسہ دینے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس صورت حال کا کوئی ممکنہ حل میرے دماغ میں بھی نہیں آرہا تھا۔

’’ آپ رونا بند کر کے میرے ساتھ ذرا کھل کر بات کریں تو میں جان سکوں کہ آپ کا مسئلہ ہے کیا؟‘‘ میںنے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے دلاسہ دیا۔ ’’ کیا بتاؤں، میرے پاس سوائے خالی ذہن کے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘’’ مگر کچھ تو ہے جس نے آپ کو رلا دیا ہے؟‘‘ میںنے کہہ کر اس کی طرف کاغذی رومال بڑھایا، اس نے شکریہ کے ساتھ اسے تھاما اور اپنی آنکھیں رگڑ کر صاف کیں ۔

’’ میں چھوٹی سی تھی جب میں نے اپنے ساتھ ناانصافیاں ہوتے دیکھیں، ابا کا جھکاؤ بیٹوں کی طرف زیادہ تھا اس لیے اماں بھی انھی کی پلیٹیں سالن اور بوٹیوں سے بھرتیں تا کہ ابا ان سے خوش رہیں، انھیں دودھ پلاتیں کہ وہ جلدی جوان ہوں ۔

کوئی رشتہ دار گھر آتے اور جاتے ہوئے وہ ہم سب بچوں کو رقم دے کر جاتے کہ آپس میں بانٹ لیں اور وہ آپس بھی بھائیوں کے بیچ میں ہی ختم ہو جاتا۔ بہنوں کو کچھ نہ دے کر ان کے ذہنوں میں اس عمر سے ہی یہ بٹھا دیا گیا تھا کہ جو کچھ ہے وہ صرف بھائیوں کی ملکیت ہے، بہنیں تو بے زبان جانوروں کی طرح ہیں جنھیں جس سمت ہانکو وہیں چل دیتی ہیں، جس کھونٹے سے باندھ دو، اسی سے بندھے بندھے چارہ کھا لیں گی۔ وہ کون سا انسان ہیں جو ان کی ضروریات ہوں ۔

بچپن سے ہی انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ ان کے باپ، ان کے بھائی اہم ہیں… باقی سارے وہم ہیں۔ گھروں کے کونے کھدروں میں جہاں ایک چارپائی کی جگہ بن جائے ، وہیں ان لڑکیوں کو سونے کے لیے بستر دے دیا جاتا ہے اور لڑکوں کے لڑکپن میں پہنچتے ہی انھیں علیحدہ کمرہ دے دیا جاتا ہے کہ بھائیوں نے علیحدہ بیٹھ کر پڑھنا ہوتا ہے، ان کے دوست ملنے کو آتے ہیں۔ نہ صرف انھیں ایک علیحدہ کمرہ دے دیا جاتا ہے بلکہ اس کمرے کی صفائی ستھرائی بھی بہنوں کے فرائض میں شامل ہو جاتی ہے ۔

بھائیوں کے حقوق گھر میں سب کو یاد ہوتے ہیں اور بیٹیوں کے فرائض۔ وہ کسی بات پر اپنے سے چھوٹے بھائی کو بھی کچھ کہہ دیں تو گھر کا ہر فرد درجہ بدرجہ اس کی بے عزتی کرتا ہے کہ اس نے بھائی کی شان میں گستاخی کی ہے جو کہ ایک مرد ہے۔ عورتوں سے افضل ہے اور عورتیں تو بنی ہی اس لیے ہیں کہ وہ مردوں کی غلامی کریں۔ گھٹ گھٹ کر سانس لیتے میں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا، کوئی اچھی یاد میرے پاس نہیں ہے کہ میرے والدین یا دادا دادی نے کبھی کسی بات پر تعریف کی ہو، کسی کامیابی پر سراہا ہو، کبھی اس قابل سمجھا ہو کہ مجھے بھی تعریف کی ضرورت ہے کہ میری صلاحیتوں کو بھی کھاد اور پانی ملے۔

پرانی کتابیں، پرانے بستے اور ایک سے دوسری بہن کو منتقل ہوتا ہوا یونیفارم پہن کر بھی جب ہم بہنیں جماعت میں کوئی اچھی پوزیشن لیتیں تو اس پر نہ گھر سے کسی سے تھپکی ملتی اور نہ ہی اس کامیابی کو سراہا جاتا، بھائی تو صاف کہہ دیتے کہ نقل مارکر پاس ہوئی ہو گی اور باقی گھر والے اگر چہ کہتے نہ تھے مگر انھیں بھی یہی شک ہوتا تھا۔

ناکافی اور غیر متوازن خوراک کھا کھا کر بھی ہم بہنیں صحت مند اور توانا اور اچھی اٹھان والی تھیں۔ شکل و صورت بھی اللہ نے کمال کی دے دی تھی، ہمارے مقابلے میں وہ بھائی جن پر گھر والے جان بھی نچھاور کرنے کو تیار ہوتے تھے، وہ نہ پڑھائی میں اچھے تھے اور نہ عادات میں۔ گھر والوں کے خوشامدانہ رویے کے باعث وہ جانے خود کو کہاں کہاں کے شہزادے اور راجے سمجھتے تھے۔ محلے اور ارد گرد سے بھائیوں کی شکایتیں آتیں کہ وہ لڑتے جھگڑتے ہیں یا دوسروں کی بیٹیوں پر بری نظر رکھتے ہیں تو بھی والدین کو لگتا کہ ساری دنیا غلط ہو سکتی ہے ان کے بیٹے نہیں۔ دوسرے جھگڑتے ہوں گے اور دوسروں کی بیٹیاں ہی ہمارے بھائیوں پر بری نظر رکھتی ہوں گی۔ اپنے بیٹوں کے بارے میں تو کچھ سن ہی نہیں سکتے تھے ماسوائے تعریف کے۔

وقت گزرا اور کئی موسم بدلے، ہم بہنیں لکھ پڑھ کر کسی قابل ہو گئیں مگر والدین نے ملازمت کی اجازت نہ دی کہ اس میں ان کی بے عزتی کا مقام تھا۔ سوجونہی ہمارے ہاں کوئی رشتہ آتا، ذرا سی تحقیق کر کے ایک ایک کر کے ساری بیٹیاں بیاہ دیں۔ اماں کا خیال تھا کہ بیٹے بیاہنے سے پہلے گھر کا آنگن بیٹیوں کے سائے سے خالی ہونا چاہیے۔ جیسے ہمارے سائے تو ان کے بیٹوں کی خوشیوں کو ڈس ہی لیتے ۔ ابا نے گھر کے تین پورشن بنوا لیے تھے کہ ایک ایک بیٹے کا خاندان اس میں آباد ہو سکے گا… ہم بیٹیاں کس کھیت کی مولیاں تھیں۔

ہمارے جہیز کو ہی ہماری کل متاع قرار دے دیا گیا تھا۔ ہمارے بھائی تو کسی قابل تھے نہیں، ابا کے جمے جمائے کاروبار میں بھی انھیں دلچسپی نہ تھی اس لیے جو کوئی ان کا رشتہ دیکھنے کو آتا، انھیں نکما جان کر ہٹ جاتا مگر جب ابا انھیں بتاتے کہ گھر کا فلاں پورشن اس بیٹے کے نام ہے اور ابا کے کاروبار میں بھی ان کا تیسرا حصہ ہے تو رشتہ دیکھنے کو آنے والے قائل ہو جاتے۔

بھائیوں کی شادیوں میں بھی ہم بہنیں اسی طرح شرکت کرتیں جس طرح باقی خاندان والے کرتے تھے۔ نہ ہماری کوئی رائے تھی نہ مشورہ۔ کبھی کبھار تو مجھے لگتا تھا کہ اسلام سے پہلے جو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، وہ شاید بہتر تھا، اب انھیں زندہ دفن نہیں کیا جاتا مگر ہر روز انھیں مرنے دیا جاتا ہے اور اگلے دن وہ پھر جاگ جاتی ہیں نئی امید کے ساتھ۔ ابا اگر جانچ پڑتال کر لیتے تو ہم بہنوں کے رشتے بھی اچھے ہو جاتے ، ہمیں بد زبان شوہر اور ہر وقت ناخوش رہنے والی سسرالیں ملیں اور ہم ساری بہنیں رل رل کر وقت گزار رہی ہیں مگر جو ابا اور اماں نے کبھی پلٹ کر ہمیں پوچھا ہو کہ کس طرح کے حالات میں جی رہی ہیں۔ بھائیوں نے ابا کی دولت پر عیش کرنے کو ہی کام سمجھ رکھا ہے اور ہم بہنوں کے شوہر بھی ایسے ہی ہیں کہ فاقوں مر جائیں مگر وہ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے تھے۔ ساری بہنیں ایک ہی جیسے حالات میں ہیں اس لیے کوئی کسی کے دکھ درد کا مداوا بھی نہیں کر سکتی۔

اپنے ارد گرد جہاں بھی دیکھتی ہوں ، ہر گھر میں ایسے ہی حالات نظر آتے ہیں۔ جانے ڈراموں میں دکھائے جانے والے بھائی، باپ، شوہر کہاں پائے جاتے ہیں؟؟‘‘ وہ سانس لینے کو رکی۔ میں سوچ رہی تھی کہ ڈراموں میں بھی کیا کچھ نہیں دکھایا جا رہا ہے، باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے… سب اسی طرح کے دکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی بھی تو اسی طرح کی کہانیوں اور ڈراموں سے سیکھتا ہے۔

’’ باپ تھا تو وہ بیٹیوں اور بیٹوں کے بیچ تفریق کرنے والا، ماں بھی ناانصافی کا سلوک روا رکھنے والی، بھائی تھے تو وہ بھی ہمیں ملازمائیں سمجھنے والے۔ اماں ہر وقت کہتیں کہ سسرال جاؤ گی تو اپنی مرضی کرنا۔ شادی ہوئی اوردل میں ہزاروں ارمان سجا کر جب سسرال کی دہلیز پر قدم رکھا تو شوہر بھی تو ایک مرد ہی تھا نا، ابا اور بھائیوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا۔ وہ ان سے کیسے مختلف ہوتا، وہ کہاں ہمیں پیر کی جوتی سے زیادہ حیثیت دیتا۔ ‘‘ جہاں محاورے اور ضرب المثل ایسے ہوں کہ بیٹیاں دھریک کے درخت ہیں جو ہر دن بڑھتے ہیں اور بیٹے آم کے پودے کہ جنھیں بہت دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے… بیوی کی موت، کہنی کی چوٹ ( یعنی لگتی ہے تو یکدم بہت درد محسوس ہوتا ہے مگر جلد ہی آرام بھی آجاتا ہے) ، بیوی اور جوتی ایک جیسی ہوتی ہیں ، ایک تنگ کرے تو بدل لو، نئی لے لو… اپنا بچہ اور دوسرے کی بیوی سب کو اچھے لگتے ہیں۔

ایسے ایسے محاورے ہیں کہ ہمیں اپنی وقعت اور بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ وقت جتنا بھی بدل گیا ہے، اب بھی لوگ اولاد مانگتے ہیں تو بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں، اب بھی بیٹیوں کی پیدائش پر دکھی ہو جاتے ہیں۔ بڑھاپے میں جن بیٹوں کے سائے میں بیٹھنے کی خواہش کرتے ہیں، وہ سائے عموماً دھریکوں کے ہی نصیب ہوتے ہیں۔ اگر آج کے زمانے میں بھی آپ بیٹیوں اور بیٹوں میں ایسی تفریق کرتے ہیں تو پھر اس معاشرے اور قبل از اسلام کے معاشرے میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟؟



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات