(24 نیوز) کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان کے خلاف منی لانڈرنگ کا نیا پہلو سامنے آ گیا، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عدالت میں مقدمے کا عبوری چالان جمع کروا دیا، جس میں سنگین انکشافات کیے گئے ہیں۔
چالان کے مطابق، ارمغان اور اس کے ساتھی امریکی سرکاری اداروں کے اہلکار بن کر لوگوں سے رابطہ کرتے تھے اور انہیں دھوکا دے کر خطیر رقم بٹورتے تھے، ارمغان نے جعلی کال سینٹرز کے ذریعے ماہانہ تین سے 4 لاکھ امریکی ڈالرز کمائے جبکہ اس کا سالانہ منافع 25 بلین ڈالرز تک پہنچا۔
ایف آئی اے کے مطابق، ارمغان نے اپنے اثاثے کرپٹو کرنسی میں بھی منتقل کیے، اور اس کے زیرِ استعمال آٹھ گاڑیوں کی مجموعی مالیت 154 ملین روپے سے زائد ہے، ادارے نے مزید بتایا کہ ملزم کے خلاف ثبوت کے طور پر 18 لیپ ٹاپ، دھوکا دہی پر مبنی اسکرپٹس اور دیگر شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں:منی لانڈرنگ کیس: جیکولین فرنینڈس کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
چالان میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ارمغان نے 2018 میں اپنی جعلی کمپنی رجسٹر کروائی تھی اور اس کے ساتھ کامران قریشی بھی منی لانڈرنگ کے اس نیٹ ورک میں شریک تھا، ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم ڈارک ویب کے ذریعے مختلف ممالک سے ڈرگز منگواتا اور کرپٹو کرنسی کے ذریعے ادائیگی کرتا تھا۔
چالان کے مطابق، ارمغان نے ڈرگز کی خرید و فروخت بھی شروع کر دی تھی جبکہ کال سینٹر کے ایجنٹس کو کم از کم 75 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی جو کہ بعد ازاں ساڑھے چار لاکھ روپے تک پہنچ سکتی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے پیش کردہ یہ چالان کیس میں سنگینی کو مزید واضح کرتا ہے اور آئندہ سماعت میں عدالت کی جانب سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔