تبصرہ نگار: ارشاد احمد ارشد
حصن المسلم ۔۔۔مسنون نماز اور محقق دعاؤں پر مشتمل کتاب
انسان جسمانی اور روحانی طور کمزور ہے ۔ مصائب و مشکلات اسے نڈھال اور پریشان کر دیتے اور گناہ اسے روحانی طور پر کمزور کر دیتے ہیں ۔ تب انسان بے بس ، مجبور اور لاچار ہو جاتا ہے ۔
یسی حالت میں رسالت ماٰب ﷺ نے ہر مشکل کا حل بتا دیا ہے۔فرمایا’’ اے لوگو! اللہ کے حضور محتاج اور فقیر بن کر التجا کرو اور دعائیں مانگو ۔ جب بھی تم اس کی چوکھٹ پر جھکو گے تو ہمیشہ اس کے دروازے کھلے پاؤ گے۔‘‘ رسول مقبول ﷺ خود بھی ہر موقع پر اللہ کے حضور دعاؤں کا دامن پھیلاتے تھے اور اپنی امت کو بھی ہر موقع محل کی دعائیں سکھائی ہیں۔ ’’دعا‘‘ ایک ایسا عمل ہے جسے رسول مقبول ﷺ نے مومن کا ہتھیار اور قلعہ قرار دیا ہے، مشکل وقت میں ہتھیار سے انسان اپنا بچاؤ کرتا ہے اور حفاظت کیلئے قلعہ میں پناہ لیتا ہے۔ دعاؤں کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر سعودی عرب کے جید عالم دین سعید بن علی القحطانی نے دعاؤں کا یہ مسنون اور جامع مجموعہ مرتب کیا ہے جو ’’ حصن المسلم‘‘ یعنی’’ مسلمان کا قلعہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔اس کا اردو ترجمہ معروف عالم دین مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم نے کیا ہے ۔
ہماری معلومات کے مطابق دنیا بھر میں اس سے زیادہ مستند اور مقبول ترین دعاؤں کی کتاب اور کوئی نہیں۔ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں بلا مبالغہ کئی سو ملین کی تعداد میں چھپ کر تقسیم کی جا چکی ہے۔ دارالسلام کے محققین نے اس اہم اور مقبول ترین کتاب کو مزید مفید بنانے کے لیے اس میں چند ضروری اضافے کئے ہیں جس سے اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ کتاب میں درج ذیل موضوعات پر دعائیں شامل ہیں: حمد و ثنا ، درود و سلام، توبہ و استغفار، سونے اور بیدار ہونے کی دعائیں، طہارت اذان اور نماز، صبح و شام کے اذکار اور دعائیں، مشکلات اور قرض سے نجات کی دعائیں، حج و عمرہ اور سفر کی دعائیں، کھانے پینے اور لباس سے متعلقہ دعائیں، روزمرہ کی دعائیں۔
ہر باب کی دعائیں مضامین کے اعتبار سے نہایت ہی عمدہ ترتیب سے پیش کی گئی ہیں ۔ ضروری ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں یہ دعائیں ہم خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں تاکہ ہم اور ہمارے اہل خانہ دعاؤں کے ذریعے اللہ کی حفاظت میں آجائیں ۔ روزمرہ کی دعاؤں اور اذکار پر مشتمل یہ شاہکار کتاب تین سائز میں دستیاب ہے ۔ پاکٹ سائز کتاب کی قیمت 190روپے، درمیانہ سائز 270 روپے، بڑا سائز مجلدکی قیمت 550 روپے ہے۔ یہ کتاب دارالسلام انٹر نیشنل ، نزد سکرٹریٹ سٹاپ ، لوئر مال لاہور سے دستیاب ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کیلئے درج ذیل نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
تبصرہ نگار : قراۃالعین حیدر
امرت سر کی بِلو
مصنف: سہیل پرواز
پبلشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور، سالِ اشاعت: اکتوبر 2024
برصغیر کے ادب میں تقسیم کے پس منظر پر لکھا جانے والا ادب ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف تاریخ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انسانیت کی شدید تکالیف اور قربانیوں کو بھی پیش کرتا ہے۔ امرت سر کی “بلو” اسی ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے، جس نے تقسیم کے درد کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔آغا جی کا بنایا ہوا سرورق واقعی بہت دلکش اور معانی سے بھرپور ہے۔
گولڈن ٹیمپل اور بادشاہی مسجد کا پس منظر ایک خوبصورت ثقافتی امتزاج کو ظاہر کرتا ہے جو تقسیم کے بعد کے ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ کی گہرائی کو بیان کرتا ہے۔ انہوں نے سرورق کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور یہ ناول کے موضوع کو ایک نیاپن دیتا ہے۔ انٹرنیشنل بک فئیر لاہور میں ناول لانچ نہ ہونے کا افسوس ہوا، مگر خوشی کی بات یہ رہی کہ میرے عزیز بھائی ماجد مشتاق نے اس کی ایک کاپی فراہم کر دی۔ اس سے قبل آغا جی کی آپ بیتی “جو تنہا کرگئی مجھ کو” بھی ان کا ایک اہم ادبی کام ہے اور اس پر میرا تحریر کردہ تبصرہ روزنامہ ایکسپریس میں چھپ چکا ہے۔ اس سے ہمیں آغا جی کی زندگی، شخصی تجربات اور ان کے قلم کی حقیقت پسندانہ جھلکیاں ملتی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ تقسیمِ ہند کا دکھ دونوں طرف یکساں تھا، اور اس ناول امرت سر کی بِلو میں آغا جی نے تاریخ کو فکشن کے ساتھ بْنا ہے، جو کہ ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دیتا ہے۔ جب کہانی میں تاریخی واقعات کو فکشن کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ محض ایک واقعہ نہیں رہتا بلکہ ایک جذباتی تجربہ بن جاتا ہے۔ امرت سر کی بِلو کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ صرف تقسیم کی جسمانی اور مالی تباہی پر بات نہیں کرتی بلکہ ان زخموں کو بھی سامنے لاتی ہے جو آج تک مندمل نہیں ہو سکے۔ مکالمے اور منظر نگاری کے حوالے سے ایک اچھی کہانی وہی ہوتی ہے جو قاری کو نہ صرف پڑھنے پر مجبور کرے بلکہ اسے محسوس بھی کرائے۔ یہی وہ سحر ہوتا ہے جو کہانی کو امر بنا دیتا ہے ۔
اس ناول میں تقسیم ہند کے ہولناک دور کی حقیقت کو نہایت متاثر کن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ درحقیقت وہ وقت انسانیت کی تذلیل کا تھا جب مذہب یا قوم کی بنیاد پر انسانیت کی حدود پامال کی گئی تھیں ۔ مصنف نے جس طرح سے خوف، نفرت اور خونریزی کو بیان کیا ہے، وہ ایک گہری حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اس تاریخ میں مذہبی یا قومی حدود کے نام پر انسانیت کی قیمت پر کھیلنے والوں کا کردار کچھ اور ہی تھا۔ یہ وقت نہ صرف خونریز تھا بلکہ اس میں انسان کی سب سے بنیادی جبلت، یعنی رحم، بھی کہیں کھو چکا تھا۔ یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ تقسیم ہند میں دونوں طرف بہت زیادہ ظلم و زیادتی ہوئی۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک ایسا کربناک تجربہ ہے جو قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ہے ۔ تقسیم کے واقعات کا سب سے بھیانک پہلو یہی تھا کہ انسانیت دم توڑ گئی تھی۔ نبی بخش، کلثوم، رشیدہ، حمیدہ، اللہ یار، رسولاں، صغریٰ اور بلقیس عرف بِلو جیسے کردار صرف نام نہیں بلکہ وہ مظلوم چہرے ہیں جو تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گئے مگر ان کی چیخیں آج بھی سنائی دیتی ہیں۔
یہ ناول صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک ایسا کربناک تجربہ ہے جو قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ ناول میں مقامی بولی کے الفاظ کا استعمال کہانی کو مزید جاندار اور حقیقی بنا دیتا ہے۔ جب کردار اپنی اصل زبان اور لہجے میں بات کرتے ہیں، تو قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود اسی دور اور ماحول میں موجود ہو ۔ دیسی الفاظ جیسے بلدی چو، مسیت، ویاہ، بھانڈے وغیرہ صرف زبان کا حسن نہیں بڑھاتے بلکہ ثقافت اور تہذیب کی جڑوں سے بھی روشناس کراتے ہیں۔
محبت ایک ایسا لطیف جذبہ ہے جو ذات پات، رنگ نسل، مذہب یا دھرم سے ماورا ہے۔ تقسیم ہند کی بے رحم فضائیں بھی اس جذبے کو دبا نہ سکیں بلکہ کئی جوڑوں کی راہیں تقسیم ہند نے ہموار کیں۔ ناول کی کہانی ماں کی سختی اور مار پیٹ کی ستائی ایک لڑکی کے عجیب و غریب اقدام کی داستان ہے۔
جس نے صرف اپنے دل کی سْنی اور مذہب تیاگ کر کے سکھ مت قبول کیا۔ اسکے علاوہ ناول میں پانچ خاندانوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں جو ہجرت کر رہے تھے جس میں سے ایک خاندان تو مکمل طور پر تقسیم ہند کے فسادات کی نذر ہو جاتا ہے اور دو خاندان خوشگوار لمحات پاتے ہیں جبکہ تین خاندانوں کی زندگیوں کا احوال کافی دور تک جاتا ہے۔ پھر تقسیم کے دوران بچھڑ جانے والے لوگ کیسے چالیس سال بعد ملتے ہیں وہاں مصنف کا قلم کیسے تاریخ بیان کرتے کرتے فکشن لکھنے لگا اس کا قاری کو مطلق احساس نہیں ہوتا ۔ مہاجر کیمپوں کے حالات کو نہایت دردناک انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کیمپوں میں پناہ لینے والے لوگ صرف دشمنوں کے ہی نہیں، بلکہ کئی بار اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطنوں کے ہاتھوں بھی ظلم کا شکار ہوئے۔
سہیل پرواز (آغا جی) کا اندازِ تحریر واقعی ایسا ہے کہ قاری صرف پڑھتا نہیں بلکہ ناول کے اندر جیتا ہے، کرداروں کے ساتھ ہنستا، روتا، اور سفر کرتا ہے۔ ان کے الفاظ حقیقت کی تصویر کشی کرتے ہیں، جیسے کوئی فلم آنکھوں کے سامنے چل رہی ہو ۔ یہ ناول صرف تقسیم ہند کے المیوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ 1980یا 1990 کے دور تک کے سماجی، سیاسی اور ملکی حالات کو بھی پیش کرتا ہے۔ یعنی، کہانی محض ایک دورانیے تک محدود نہیں رہتی بلکہ مختلف نسلوں، تبدیلیوں اور عروج و زوال کو ساتھ لے کر چلتی ہے ۔
ناول کی کہانی وسط تک تو خاصی پر ہنگم اور فسادات سے بھرپور تھی لیکن وسط کے بعد کہانی میں ٹھہراؤ آتا ہے اور آپ کو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس آگے بڑھتی ہوئی کہانی کا تقسیم ہند سے کوئی ناطہ نہ ہو۔ مگر پھر کہانی پلٹا کھاتی ہے اور پھر چند صفحات مزید مطالعہ کے بعد آپ دلچسپی کے سمندر میں ایسے غوطہ زن ہوں گے کہ پھر اختتام کے بعد ہی آپ کی جان چھوٹے گی۔ ناول کی کہانی کچھ امانتوں کی بھی ہے کیا وہ امانتیں اپنے اصل مالک تک پہنچ سکیں۔ آپ کو جدید دور کی دلفریب محبت کی داستان بھی پڑھنے کو ملے گی جو یقیناً آپ کے چہرے پر مسکان بکھیر دے گی لیکن جدید دور کی اس محبت کی جڑیں تقسیم ہند سے کہیں نا کہیں جڑی ہوئی تھیں وہ جڑیں کیا تھیں آپ یقیناً پڑھ کر حیران ہوں گے۔
“امرتسر کی بلو” کا اختتام ایک گہرے معنوی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ بلو کا اپنی اصل پہچان اور مذہب کی جانب لوٹ آنا اس کے طویل اور تکلیف دہ سفر کا اختتامیہ بن جاتا ہے، جو قاری کو ایک اطمینان بخش احساس دیتا ہے۔ یہ ناول محض فسادات، خونریزی اور تقسیم ہند کے زخموں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس میں امید، شناخت اور امن کا پیغام بھی موجود ہے۔ بلو کا یہ فیصلہ اس کی اپنی ذات کی تکمیل بن کر آتا ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ انسان کتنا بھی بھٹک جائے، بالآخر وہ اپنی حقیقت کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ امن، شناخت اور واپسی کا ایک ایسا پیغام ہے، جو خونریز تاریخ میں بھی روشنی کی ایک کرن بن کر ابھرتا ہے۔
انسانی حقوق کا ارتقا اور تصور : ایک اہم تصنیف
آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا تصور ایک عام بات معلوم ہوتا ہے، لیکن اس نظریے کے ارتقا اور تشکیل کا عمل صدیوں پر محیط ہے۔ انسانی سماج میں اس تصور نے کیسے جنم لیا اور تاریخ میں یہ کس طرح ارتقا پذیر ہوا، یہ ایک گہرا اور وسعت رکھنے والا موضوع ہے۔
قدیم زمانے میں، جب انسانی سماج تشکیل پا رہا تھا، تو یہ سوال ابھرا کہ فرد کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق رکھتا ہے؟ ابتدائی معاشروں میں طاقت ہی سب سے بڑی حقیقت تھی، اور جو زیادہ طاقتور ہوتا تھا، وہی اپنے حقوق کا تعین کرتا تھا۔ کمزور افراد کے لیے مساوی حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا، جس کے باعث ایک ایسے سماج کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں سب کے حقوق برابر ہوں۔ چنانچہ ضابطے اور قوانین متعارف کروائے گئے تاکہ ہر فرد کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
دنیا کے اولین تحریری قوانین میں، بابل کے حکمران *حمورابی* کے قوانین کو خاص اہمیت حاصل ہے، جن کے ذریعے طاقتور افراد کی بے لگام آزادی پر قدغن لگائی گئی اور عام انسانوں کے حقوق کو متعین کیا گیا ۔ تاہم، انسانی حقوق کا تصور صدیوں تک ایک مبہم شکل میں رہا،یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی میں *عمرانی معاہدے* کا نظریہ سامنے آیا ۔ مشہور فلسفی *ڑاں ڑاک روسو* کے مطابق، لوگ اپنے حقوق کے تحفظ اور اجتماعی فلاح کے لیے ایک معاہدے کے تحت حکومت قائم کرتے ہیں، جسے وہ اپنے معاملات چلانے کا اختیار دیتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق، ریاست میں سب کے حقوق برابر تصور کیے گئے، لیکن عملی طور پر حکمران طبقہ مطلق العنان بنتا چلا گیا۔
قرون وسطیٰ میں عام انسان کو صرف جینے کا حق حاصل تھا، مگر وہ آزادی کے بنیادی حق سے محروم تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب روسو نے کہا تھا: *”انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، مگر ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔”*
یہ ایک طویل جدوجہد کی کہانی ہے کہ کس طرح انسان نے اپنے موجودہ بنیادی حقوق حاصل کیے۔ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، مگر خوش قسمتی سے حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب *”انسانی حقوق کا ارتقا اور تصور”* نے ہمیں اس تمام جدوجہد سے چند گھنٹوں میں روشناس کرانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ کتاب پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کی مشترکہ تصنیف ہے، اور اس کی جامعیت کے باعث اسے ایک انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب میں نہ صرف تاریخی پس منظر کو بیان کیا گیا ہے بلکہ مختلف مذاہب میں انسانی حقوق کے تصورات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، *حمورابی کے قوانین*، جو 1750 سے 1792 قبل مسیح کے درمیان تحریر کیے گئے تھے، ایک پتھر کی سل پر کندہ کیے گئے، جو 1901 میں ایران سے دریافت ہوئی اور اب فرانس کے قومی عجائب گھر میں موجود ہے۔ اسی طرح *سائرس اعظم* کے ضابطے، جو *سائرس سلنڈر* کے نام سے مشہور ہیں، بھی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
*میگنا کارٹا* (1215ء) ایک اور اہم دستاویز ہے، جو انگلستان کے بادشاہ اور باغی امراء کے درمیان طے پائی۔ اس معاہدے کے تحت پہلی بار یہ اصول طے ہوا کہ بادشاہ بھی قانون سے بالاتر نہیں ہو گا، اور قانون سب کے لیے یکساں ہو گا۔
ابتدائی طور پر انسانی حقوق کو *فریڈم* یعنی آزادی کے مفہوم میں سمجھا جاتا تھا، اور چونکہ امراء زیادہ تر سیاسی پس منظر رکھتے تھے، اس لیے ان کے حقوق کی جدوجہد کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی۔ لیکن بعد میں یہ حقوق مختلف طبقات کے لیے بھی تسلیم کیے جانے لگے۔
کتاب میں مذہبی حوالوں سے انسانی حقوق پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ مصنفین نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ بعض اوقات مذہب کی مخصوص پابندیاں انسانی حقوق پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، دستورِ پاکستان میں بعض اعلیٰ عہدوں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے، جو انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم مانی جا سکتی ہے۔
ممتاز صحافی *حسین نقی* کے مطابق، یہ کتاب صحافیوں، طالب علموں اور عام قارئین کے لیے انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی مفید ہے۔ مشرق و مغرب کی وہ تحریکیں، جنہوں نے انسانی حقوق کے ارتقا میں کلیدی کردار ادا کیا، اس کتاب میں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جامعات اور کالجز میں نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے، خاص طور پر *قانون، سیاسیات، عمرانیات، مطالعہ پاکستان، صحافت، بین الاقوامی تعلقات* اور *تاریخ* کے طالب علموں کے لیے یہ ایک قیمتی علمی ذخیرہ ہے۔
1980-81 میں، جب راقم الحروف اردو کالج میں ایل ایل ایم کے دوسرے بیچ میں زیرِ تعلیم تھا، اس وقت *بنیادی انسانی حقوق* نصاب کا حصہ تھے، مگر اردو زبان میں اس موضوع پر سوائے *صلاح الدین* صاحب کی ایک کتاب کے، کوئی اور جامع کتاب موجود نہیں تھی۔ طلبہ زیادہ تر *پروفیسر شمیم اختر* کے لیکچرز پر انحصار کرتے تھے۔ اس وقت ہمیں اس موضوع پر ایک اچھی کتاب کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔
یہ کمی اب *”انسانی حقوق کا ارتقا اور تصور”* کی اشاعت سے پوری ہو گئی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف تعلیمی میدان میں ایک خلا کو پر کرتی ہے بلکہ انسانی حقوق کو بطور ایک علیحدہ سماجی مضمون پڑھائے جانے کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ بی ایس سطح پر اس موضوع کی تدریس کا آغاز اب ممکن ہو چکا ہے۔
یہ تصنیف ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی اور ریاستی اداروں کے قانون سے بالاتر اقدامات جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ *جبری گمشدگیوں* اور *پرتشدد کارروائیوں* نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ایسے میں اس کتاب کی افادیت دوچند ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ کیسے ممکن ہے۔
ڈاکٹر عرفان عزیز نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد اور سیاسی تقسیم کا واحد حل یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تعلیم کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں لازمی طور پر شامل کیا جائے۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ علم و دانش بھی اس موضوع پر اپنی تحقیق اور کاوشیں پیش کریں، تاکہ انسانی حقوق پر مزید علمی ذخیرہ میسر آئے اور اس اہم ترین مسئلے پر کتابوں کی کمی کا ازالہ کیا جا سکے۔
(تبصرہ نگار: طاہر حبیب)