پنجاب پولیس نے پولیس یونیفارم کی تضحیک کرنے پر گزشتہ روز ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کو گرفتار کر لیا جبکہ وائرل ویڈیو میں دکھائی دینے والا پولیس کانسٹیبل بھی زیرِ حراست ہے۔
حال ہی میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کے لیے پیسوں سے بھری ٹرے تھامے اسٹیج کے پاس کھڑا ہے اور ٹک ٹاکر اس ٹرے سے پیسے اٹھا کر قوال اور رقصاؤں پر نچھاور کر رہے ہیں۔
مذکورہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پنجاب پولیس کی جانب سے قلعہ گجر سنگھ تھانے میں جمعرات کو مقدمہ درج کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق مقدمے میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں کاشف ضمیر کو شادی کی تقریب میں پولیس کی وردی پہنے ایک شخص کے ساتھ دیکھا گیا، جو پیسوں کی ٹرے تھامے ہوئے ہے، اس کی شناخت بعد میں ڈرائیور کانسٹیبل خرم شہزاد کے نام سے ہوئی۔
ایف آئی آر کے مطابق ڈرائیور کانسٹیبل خرم شہزاد کے خلاف پولیس آرڈر 2002ء کی دفعہ 115 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ کانسٹیبل کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد ٹک ٹاکر کاشف ضمیر نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور کہا کہ پولیس کانسٹیبل والی ویڈیو کو اے آئی کی مدد سے ایڈیٹ کیا گیا ہے۔
ٹک ٹاکر کے مطابق ویڈیو میں موجود شخص میرا ذاتی گارڈ ہے، کوئی پولیس اہلکار نہیں اور اس کے مبینہ کالے کپڑوں کو دشمنوں نے اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے پولیس یونیفارم میں تبدیل کیا تھا کیونکہ میں نے یوٹیوبر رجب بٹ کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی۔
کاشف ضمیر کا کہنا ہے کہ میں پنجاب پولیس کا احترام اور پیار کرتا ہوں اور اپنا کیس ہائی کورٹ میں کیس لڑوں گا۔
دوسری جانب خرم شہزاد مذکورہ ویڈیو بیان سے قبل ہی اعترافِ جرم کرتے ہوئے وائرل ویڈیو کو حقیقی قرار دے چکے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ خرم شہزاد اور کاشف ضمیر پولیس کی تضحیک کا باعث بنے اور اے آئی کا استعمال کر کے جھوٹے بیانیے کا پرچار کیا، ان کے خلاف الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016ء (پیکا) کے سیکشن 13 (الیکٹرانک جعل سازی) اور 26 (جعل سازی) اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 اور 201 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کے دفتر سے جاری بیان میں اس کیس کو ہائی پروفائل قرار دیا گیا ہے جبکہ اس کیس کی مزید ضروری تحقیقات جاری ہیں۔