کہتے ہیں ایک شخص کی جھوٹ بولنے میں بڑی شہرت ہوگئی پورے شہر میں اس کے اتنے چرچے ہوگئے کہ شایع اس کے پرچے ہوگئے۔یہاں تک کہ شہروالوں نے اسے نہ صرف چیمپئین آف لا کا اعزازی خطاب دیا بلکہ کئی اعزازی ڈگریاں بھی دیں۔پھر اسے شہر کی حکومت نے اپنا خصوصی ترجمان بھی ڈیکلیر کر دیا۔اس کی شہرت شہر میں تو پھیلی ہوئی تھی آہستہ آہستہ اردگرد کے علاقے میں بھی دور دور تک پہنچ گئی۔
ایک گاؤں کی ایک بڑھیا کسی کام سے شہر آنے لگی تو گاؤں والوں نے کہا اس’’جھوٹے‘‘ کو بھی دیکھ آنا۔جس کی اتنی شہرت ہے اور جس کے بیانات، واقعات اور قصے اتنی دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔بڑھیا انتہائی حد تک بدصورت تھی اور اپنی اس بے مثال بدصورتی کی وجہ سے کنواری رہ گئی تھی۔
شہر پہنچی تو اپنے کام کرنے کے بعد اس نے اس جھوٹے سے بھی ملنے کا ارادہ کیا، پوچھتی پاچھتی ہوئی آخر کار اس تک پہنچ گئی۔اور کہا وہ مشہور جھوٹے تم ہو؟۔جھوٹے نے نہایت حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔پتھر کا بت بن کر اور حیران سا ہوکر مسلسل دیکھے جارہا تھا۔بڈھی نے اسے پھر یاد دلایا کہ اس نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔ جھوٹے نے کہا
آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں اور دیکھنے کو کیا رہ گیا
بڑھیا نے پوچھا مطلب کیا ہے تیرا…؟ بولا میں حیران ہوں، پریشان ہوں، انگشت بدنداں اور ناطقہ سربگریبان ہوں۔اتنی حسین، اتنی جوان اور اتنی خندان ’’لڑکی‘‘ میں نے آج تک نہیں دیکھی، اے پری جمال حسینہ بے مثال، ماہ جبینہ اور آل ان آل دوشیزہ، تم کہاں سے آئی ہو کسی پرستان کی پری تو نہیں ہو؟۔ بڑھیا شرمائی، مسکرائی اور بولی۔کیا سچ؟ جھوٹے نے کہا۔سچ سچ۔سچ کے ساتھ ایک ہزار ایک سو ایک بار ’’سچ‘‘ بھی۔بڑھیا نے کہا آپ مذاق تو نہیں کررہے ہیں نا۔ جھوٹا بولا مذاق اور میں؟ اور آپ جیسی حسین، مہ جبین ،نازنین دوشیزہ کے سامنے ؎
توبہ توبہ میری توبہ مرے اوسان گئے
ہم تو اس بت کو خٖدا جانے خدا مان گئے
بڑھیا شرماتے کچھ اور چھوئی موئی ہوگئی، بولی اور؟ جھوٹا بولا وہ تو میں نے کہہ دیا کہ اور کہنے کو کیا رہ گیا۔آپ کہاں سے آئی ہیں حسینہ۔بڑھیا نے شرماتے شرماتے اپنے گاؤں کا نام لیا تو جھوٹا بولا ، لگتا ہے گاؤں کا پانی امرت ہے، حسن خیز ہے، بہت صحت خیز، طرب خیز بہت ہے ؎
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانہ لگے
خدا کرے کسی دشمن کی بددعا نہ لگے
جھوٹا بولتا رہا بڑھیا سنتی رہی پھولتی رہی نہاں ہوتی رہی۔وقت رخصت جھوٹے نے کہا کبھی کبھی آتی رہنا اور میری چشم ونظر پر احسان کرتی رہنا، پری جمال لڑکی۔ بڑھیا چل پڑی اور جو بھی راستے میں ملتا بولتی سب جھوٹے ہیں سب جھوٹے ہیں۔ایک شخص نے پوچھا بڑی بی کون جھوٹا ہے۔
غصے میں آکربولی بڑی بی ہوگی تیری ماں، تیری بہن، تیری بیوی۔اور جھوٹے تم سب ہو۔ جو اس سچے کو جھوٹا کہتے ہو، شہر میں بھی سب کو جھوٹا کہتی رہی، راستے میں بھی اور پھر اپنے لوگوں میں بھی۔ اس نے سارے لوگوں سے کہا یہ سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں، کفر تولتے ہیں، وہ تو بڑا سچا آدمی ہے بالکل سچ بولتا ہے اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں بولتا۔ لوگوں نے خواہ مخواہ اس بیچارے انتہائی سچے آدمی کو جھوٹا مشہور کیا ہوا ہے، میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں ایک ایک لفظ سچ کہتا ہے۔اور ہم اس بڑھیا سے بالکل متفق ہیں لوگ ایسے ہی نہایت ’’سچے‘‘ لوگوں کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں جب کہ وہ سچے ہوتے ہیں۔
یہ سچے لوگ جو سچ بولنے کی ’’داد‘‘ پاتے ہیں اگر سچے نہ ہوتے اور ان کے بیانات اتنے اچھے نہ ہوتے تو روزانہ اخباروں میں ان کے’’چرچے‘‘ نہ ہوتے۔بلکہ اب تو جب سے یہ نئی اقسام کے ’’شیف‘‘ اور باورچی رکھے جانے لگے ہیں کہ آدمی کا جی چاہے کہ ان پکوانوں کے ساتھ اخبار اور اپنے چشمے بھی چاٹ جائیں۔ واہ جی واہ، کیا پکوان بناتے ہیں بلکہ دسترخوان کہیے کیونکہ اب ان میں دوسرے علاقوں پنجاب وغیرہ کے لذیذ،خوشنما اور خوش رنگ ڈش بھی پکائے جاتے ہیں۔
مریم پکوان، بلاول پکوان اور اسلام آبادی پکوان۔کیا پکوان ہیں اور کیا پکانے والے ہیں۔اور پھر اوپر سے گنڈاپوری سلاد،بانی رائتہ اور دیگر سویٹ ڈش۔جی خوش ہوجاتا ہے یہ ست رنگی پکوانیں کھا کھا کر، جب سے ان پکوانوں اور پکانے کا یہ سلسلہ شروع ہوا ہے ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہم بھی اس بڑھیا کی طرح چلا چلا کر ان لوگوں کو کوسیں۔جو اتنے سچوں کو جھوٹا بولتے ہیں۔
یہ خود جھوٹے، ان کے بیان جھوٹے، ان کے خاندان جھوٹے۔وہ تو اتنا سچ بولتے ہیں کہ خود سچ بھی داد دینے کو مجبور ہوجائے بلکہ ہم نے تو سنا ہے کہ’’سچ‘‘ نے ارادہ کرلیا ہے کہ اس کوچے سے اب نکل ہی جائے تو بہتر ہے۔کہ اس کا سارا کام ان سچے لوگوں نے سنبھال لیا ہے۔بالکل اس آدمی کی طرح جسے لوگوں نے جھوٹا مشہور کیا تھا لیکن اس سچی بڑھیا نے پہچان لیا تھا، جان لیا تھا اور مان لیا تھا ؎
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں