حکومت کی طرف سے صبح وشام کہا جاتا ہے کہ ملک معاشی ترقی کی راہ پرچل پڑا ہے اورٹیک آف کرنے والا ہے یا کرچکا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے اس ملک اورقوم پرمسلط ہونے والا معاشی بحران اب ختم ہوچکا ہے اورتمام معاشی و اقتصادی اشارے مثبت سمت کی گواہی دے رہے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس بات پراطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اب پاکستان ڈیفالٹ ہوجانے کے خطروں سے باہرنکل آیا ہے۔ہمیں حکومت کے اِن دعوؤں پر شک کرناکچھ اچھا نہیںلگ رہا لیکن ہم کیا کریں کہ ہمیں سوائے چند ایک اشاروں کے کہیں بھی یہ انقلابی معاشی ترقی دکھائی نہیں دے رہی۔ عوام الناس کو آج بھی اُنکی ضرورت کی تمام اشیاء نہ صرف پرانے داموں مل رہی ہے بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوتادکھائی دے رہا ہے۔
چینی ہی کو لے لیجیے جو ایکسپورٹ کی اجازت سے پہلے عوام کو 120 یا 130روپے فی کلو مل رہی تھی وہ آج 170 یا180 میں مل رہی ہے جب کہ وزیراعظم نے اجازت اسی شرط کے ساتھ دی تھی کہ ملک کے اندر اس کی قیمت نہیں بڑھنی چاہیے اور اگر بڑھی تو برآمد کرنے کی یہ اجازت واپس لے لی جائے گی، مگر ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ اضافی چینی ایکسپورٹ ہوچکی اورعوام کواس کی سزا دے دی گئی۔ اب چینی کی قیمت 170 روپے سرکاری طور پرفکسڈ اورطے کردی گئی ۔
کوئی پوچھنے والا نہیںکہ ایسا کیوں ہوا؟ہمارے میڈیا کے پروگراموں میں ہر روز نظر آنے والے نڈر اوربے باک صحافیوں میں سے بھی کسی نے اب تک حکمرانوں سے یہ سوال نہیں کیاکہ آپ تو ایکسپورٹ کے حوالے سے جو کچھ کہاکرتے تھے اوراب کیوں خاموش ہیں۔ یہ سب کچھ عوام کو دھوکا دینے کی غرض سے تو نہیںکیاگیا۔ شوگر مافیا کیااتنی مضبوط ہے کہ حکومت بھی اس کے آگے بے بس ولاچار ہے اوروہ اپنا کام کرگئے یاپھر وہ اس کااعتراف کرلے کہ شوگر مافیا کی اکثریت ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے اوروہ ہمیشہ ہر دور میں اپنا کام کرجاتی ہے۔
اسے اپنے بزنس میں کبھی بھی نقصان نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہاجائے کہ اس وقت سب سے کم انویسٹمنٹ میںسب سے زیادہ منافع دینے والا اگر کوئی بزنس ہے تو یہ شوگر مالکان کا ہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ہرطرف اسی کے کارخانے دکھائی دیتے ہیں اوریہ کم سے کم خرچے پر بہت جلد مکمل بھی ہوجاتے اورفعال بھی۔کاشتکاروں کے خون پیسنے کی کمائی اورفصل بہت ہی سستے داموں خریدکر اپنے کارخانوں میں منتقل کرکے جب چاہتے ہیںمنہ مانگے داموں اسے فروخت بھی کردیتے ہیں۔
جب کبھی بھی نقصان کا احتمال ہونے لگتا ہے فوراً مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو پریشان اورحکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پرمجبور کردیتے ہیں،یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اورکوئی بھی ان کی گرفت کرنے والا نہیں۔
معاشی ترقی کے اوربھی کئی ایسے اشارے ہیں جن سے عوام مطمئن نہیں ہورہے ہیں، ساری دنیا میں پٹرول سستا ہونے کے باوجود انھیں صرف ایک روپیہ کا ریلیف دیا گیا۔ جب دس روپے کا ریلیف دینے کا وقت آیا تو حکومت نے اسے لیوی بڑھا کراپنے خزانے میں ڈال لیا۔ستر روپے فی لٹر لیوی یہ قوم کس جرم میں ادا کررہی ہے اسے اس جرم کا پتا ہی نہیں۔خراب معاشی حالات کی وجہ سے قوم کی تنخواہوں میں اضافہ تو نہیں کیاجاتا لیکن اپنے لوگوں اورپارلیمنٹرین کی ماہانہ تنخواہوں میں چار سوفیصد تک اضافہ کر دیا جاتا۔کیا یہ پارلیمینٹرین معاشرے کے اس غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو عوام سے زیادہ بد حال اوربے کس ومجبور ہیں۔ حکومت ابھی تک اس اضافے کو JUSTIFY بھی نہیںکرپائی ہے اورتنقید کاجواب دینے سے بھی گریزاں ہے۔
معاشی خوشحالی کے ثمرات اپنی جھولی میں ڈالتے ہوئے عوام کی حالت زار کا بھی خیال نہیںآیااورنہ IMF کی کڑی شرائط کا۔ عوام کو ایک روپیہ ریلیف دینے کے لیے IMF کی منظوری کا شور ڈالا جاتا ہے لیکن اپنی ان شاہ خرچیوں پرکوئی اجازت بھی نہیں لی جاتی۔اللہ اللہ کرکے حکومت نے ابھی اس بجلی کے نرخ کم کرنے کا اعلان مرحمت فرمایا ہے جو اسی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے عوام کو ساری دنیا میں سب سے مہنگی مل رہی ہے۔
سات روپے فی یونٹ کا اعلان بھی لگتا ہے اسی اعدادوشمار کا ہیر پھیردکھائی دیتا ہے جو ہمارے سالانہ بجٹ کے اعدادو شمار میںعام طور پرکیاجاتا ہے۔ جب اگلے ماہ بجلی کابل عوام کے ہاتھوں میں آئے گا تو اسوقت اس کا اصل پتا چلے گا کہ یہ ریلیف کتنا ہے۔حکومت کو بجلی کے بلوں میں اُن ٹیکسوں کو بھی دیکھنا ہوگا جو دس سے چودہ مختلف مدوں میں قوم پرعائد ہیں اورجس کی وجہ سے بجلی اپنی اصل قیمت سے بھی زیادہ بلکہ دگنی ہوجاتی ہے،جس طرح حکومت نے IMFکی شرط کے بغیر ہی پٹرول پر 70 فیصد لیوی لگا دی ہے اسی طرح اس نے بجلی کے بلوں کو بھی اپنے تمام اضافی اخراجات کو پورے کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔
گزشتہ ایک برس میں وزیراعظم نے بے شمار غیر ملکی دورے کیے اورہردورے کے اختتام پراُن ملکوں کے ساتھ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے کئی کئی MOUسائن بھی کیے لیکن اُن MOU پرعملدرآمد کب شرو ع ہوگا کسی کو پتا نہیں۔ یہ MOU جب تک صرف کاغذوں پرہیں اُن سے ملک کی ترقی کی آس واُمیداپنے تئیں دھوکا دینے کے مترادف ہے۔وہ جب حقیقت میں فعال ہونگے تب ہی پتا چلے گا کہ یہ کتنے مفید اورفائدہ مندہیں۔
وزیراعظم نے اس بار ادھار مانگنے کا انداز بدل ڈالا ہے اوردر در کشکول لے کر ادھار اورامداد مانگنے کے بجائے سرمایا کاری کی درخواست کا باعزت طریقہ اپنایا ہے۔کہنے کو اور دیکھنے کو تو یہ کچھ اچھا معلوم ہورہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سامنے والا پراس کا کیا اثر ہوتا ہے اوروہ حقیقت میں سرمایہ کاری کرنے پرکتنی دلچسپی دکھاتا ہے۔ فی الحال تو یہ صرف زبانی وکلامی وعدے ہی ہیں جنھیں پورا کرنے کی کوئی مدت بھی تجویز نہیں کی گئی ہے۔
ہماری معیشت اگر حکومتی دعوؤں کے مطابق ٹیک آف کرچکی ہے اور فارن ایکسچینج بھی بڑھنے لگا ہے تو دوست ممالک سے مستعار لیے گئے آٹھ نو ارب ڈالرکیونکر واپس نہیں کردیے جاتے الٹا اُن سے ہرسال درخواست کیوں کی جاتی ہے کہ انھیںمزید ایک برس اور ہمارے خزانوں میں رہنے دیاجائے ۔پتا نہیں اس طرح یہ کام کب تک چلتا رہے گا۔حکومت اگر سارے ڈالریکمشت واپس نہیں کرسکتی ہے تو کم از کم قسطوں ہی میں انھیں واپس کردیاجائے۔مگر نہیں اس طرح ہماری مستحکم معیشت کاساراپول کھل کرواضح ہوجائے گا۔ معاشی استحکام کے لیے جہاں سیاسی استحکام ضروری ہوتا وہاں امن وامان بھی ضروری ہوتا ہے۔
کیا ہمارے یہاں اس وقت یہ دونوں استحکام موجود ہیں۔ ملک کے دوبہت اہم صوبے اس وقت سخت عدم استحکام سے دوچار ہیں۔دہشت گردی کی وجہ سے جب ہمارے اپنے لوگ ہی وہاں محفوظ نہیں ہیںتو کسی غیر ملکی سرمایہ کارکی حفاظت کیسے ممکن ہوپائے گی۔ چینی کارندوں کی ناگہانی ہلاکت کی وجہ ہم برادر دوست ملک کے سامنے شرمندہ ہوتے رہے ہیں اور جس کی وجہ سے اس ملک کا اعتماد بھی مجروح ہوا ہے ۔ہم ابھی تک وہ اعتماد بحال نہیں کرپائے ہیں تو پھر ایسے میں کوئی دوسرا ملک کیسے یہاں سرمایاکاری پرراضی اوررضامند ہوپائے گا۔