یوکرین، یورپی ممالک اور روسی نمائندوں کی امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں، مشاورت اور تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری ہے جس میں ایک بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی متعدد جنگیں رکوانے کا دعویٰ کرچکے ہیں تاہم روس یوکرین جنگ پر تعطل اب بھی برقرار ہے۔
روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے صدر ٹرمپ نے تجاویز پیش کیں جس پر پوٹن نے نیم رضامندی ظاہر کی اور یوکرینی صدر بھی اپنے ساتھیوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔
ایسے ہی مشاورتی اجلاس کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی نے مضبوط سیکیورٹی ضمانتوں کے بدلے نیٹو کی رکنیت کی دیرینہ خواہش ترک کرنے کی پیشکش کر دی۔
انھوں نے کہا ہے کہ اوّلین مقصد ملکی سرحدوں اور عوام کی جان کے تحفظ ہے، اگر اس کے لیے مغربی ممالک مضبوط سلامتی کی ضمانت دیں تو نیٹو میں شمولیت سے دستبردار ہو جائیں گے۔
یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے شکوہ کیا کہ امریکا اور یورپ کے بھی کچھ شراکت داروں نے ہماری نیٹو میں شمولیت کی حمایت نہیں کی۔
خیال رہے کہ صدر زیلنسکی کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب برلن میں امریکا اور یوکرین کے اعلٰی سطح کے وفود کے مذاکرات دوسرے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔
یاد رہے کہ روس نے یوکرین پر فروری 2022 میں حملہ کرکے اس کے پانچ بڑے علاقوں کو خود میں ضم کرلیا تھا۔ یہ وہ علاقے تھے جس پر روس اپنی ملکیت کا حق جتاتا تھا۔
یوکرین پر روس نے یہ حملہ اسے نیٹو میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے کیا تھا۔ جب بار بار انتباہ کے باوجود یوکرینی صدر نے نیٹو میں شمولیت کی درخواست واپس نہ لی تھی۔
روسی حملے کے بعد سے یوکرینی صدر کو امریکا سمیت یورپی ممالک سے جس مدد اور تعاون کی امید تھی وہ تاحال پوری نہ ہوسکی۔
البتہ امریکا کے سابق صدر جوبائیڈن اور ان کی حکومت نے کسی حد تک یوکرین کی مدد جاری رکھی اور روس پر پابندیاں عائد کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
تاہم امریکا کی موجودہ حکومت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی پر زیادہ توجہ دی اور اس کے لیے اپنی تجاویز اور خدمات بھی پیش کیں۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد جب یوکرینی صدر ان سے ملنے گئے تو انھیں واشنگٹن کے بدلتے موسم کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔