34 C
Lahore
Sunday, July 20, 2025
ہومغزہ لہو لہومیرے بعد میری آنکھیں دیکھیں گی

میرے بعد میری آنکھیں دیکھیں گی


یوں تو ہم سب زندگی کے بکھیڑوں میں الجھے رہتے ہیں، خوشیاں، غم، مصروفیات، الجھنیں سب کچھ وقت کے ساتھ گزر جاتا ہے۔کبھی کوئی خوشی دل کو چھو جاتی ہے، کبھی کوئی سانحہ روح پر نقش چھوڑ جاتا ہے لیکن کچھ لوگ، کچھ چہرے، کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو صرف لمحہ بھر کی یاد نہیں ہوتی، وہ ہمارے اندر ایک مستقل بازگشت بن جاتی ہیں۔ اُن کی زندگی، اُن کی سوچ، اُن کے فیصلے، ہمیں روزمرہ کی بے حسی سے نکال کر زندگی کے اصل مفہوم سے روشناس کرواتے ہیں۔

میں نے چند دن پہلے زبیدہ مصطفیٰ پر ایک تعزیتی کالم لکھا۔ ان کی صحافتی خدمات، ان کی دیانت، ان کی بے باک تحریریں، ان کی اصول پسندی ان سب پہ دل سے لکھا، یہ جانتے ہوئے کہ ہم ایک بہادر خاتون کو کھو چکے ہیں، ایک ایسا قلم رخصت ہو چکا ہے جو بغیر لرزے حق کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا لیکن اس وقت میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ صرف قلم کی وارث نہ تھیں بلکہ وہ انسانیت سے کچھ یوں محبت کرتی تھیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ اُن کے اعضا عطیہ کردیے جائیں۔ ان کی آنکھیں، ان کی وہی آنکھیں جن سے وہ برسوں سچ کو دیکھتی، پرکھتی اور لکھتی رہیں، اب ایک استاد کو روشنی دے رہی ہیں، وہ استاد جو برسوں سے بینائی سے محروم تھا، اب دیکھ سکتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے اپنے شاگردوں کو، کتابوں کو اور اس دنیا کو زبیدہ کی آنکھوں سے۔

زبیدہ مصطفی نے مرنے کے بعد بھی کسی کی زندگی بدل دی۔ یہ فیصلہ صرف وہی کر سکتا ہے جو زندگی سے عشق کرتا ہو، جو انسان کو صرف جسم کے قالب میں نہ دیکھتا ہو بلکہ اس کی روشنی، اس کی تکمیل، اس کی اصل کو پہچانتا ہو۔

پاکستان جیسے سماج میں جہاں ابھی بھی موت سے جڑی روایات میں بندگی اور خوف کا غلبہ ہے، اعضاء کا عطیہ ایک نازک اور حساس مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم کو چھیڑنا کیا بے ادبی نہیں؟ کیا اس سے روح کو تکلیف نہیں ہوتی؟ لیکن شاید یہ وہی سوالات ہیں جو ہم نے بنا سمجھے دہرا دیے ہیں، اگر کسی کی آنکھ، کسی کا جگر، کسی کا گردہ، کسی کا دل کسی اور کی زندگی بچا سکتا ہے تو اس سے بڑی عبادت اور کیا ہو سکتی ہے؟ علماء کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اگر کسی کی جان بچانے کے لیے اعضاء عطیہ کیے جائیں تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو مرنے کے بعد بھی انسان کو کسی اور کی زندگی کا وسیلہ بناتا ہے۔

ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ ہمارے اسپتالوں میں کتنے ہی لوگ جگر کی پیوندکاری کے منتظر ہوتے ہیں، کتنے مریض گردے کی خرابی کے باعث ڈائلیسز پر ہوتے ہیں، کتنے بچے دل کے کسی پیدائشی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کی جان صرف اس وجہ سے نہیں بچائی جا سکتی کہ انھیں کوئی عضو نہیں ملتا۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارا جسم مٹی میں دفن ہوکر مٹی ہو جائے گا لیکن اگر وہی جسم کسی کی زندگی بچا لے تو کیا ہی بات ہے۔

زبیدہ مصطفی کا یہ عمل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان مرکر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ ان کا عطیہ، ان کا وژن، ان کی وسعت قلبی ہمیں سکھاتی ہے کہ انسانیت کا درس صرف کتابوں اور تقریروں سے نہیں، عمل سے دیا جاتا ہے۔ وہ جو ساری عمر قلم سے اندھیروں کے خلاف لڑتی رہیں، انھوں نے مرنے کے بعد بھی اندھیرے کو شکست دے دی۔ کیا یہ کم ہے کہ وہ آنکھ جو اخبار کے صفحات پر صداقت تلاش کرتی تھی، اب کسی بچے کے چہرے کی معصومیت دیکھ رہی ہے؟

یہ بات جتنی سادہ ہے اتنی ہی دل دہلا دینے والی بھی۔ ہم میں سے ہر شخص زبیدہ مصطفی کی طرح مرنے کے بعد کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔ ہمیں صرف فیصلہ کرنا ہے۔ صرف یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنی موت کو کسی کے لیے زندگی میں بدل سکتے ہیں۔ ہم اپنے جانے کے بعد بھی کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لا سکتے ہیں۔

کیا یہ سب کچھ ہماری خاموشی سے بہتر نہیں؟ کیا یہ تحفہ ہم کسی کو نہیں دے سکتے؟ ایک آنکھ، ایک گردہ، ایک جگر، یہ سب وہ ذرایع ہیں جن سے ہم کسی اور کی زندگی کو مکمل بنا سکتے ہیں۔جب میں نے زبیدہ مصطفی پر پہلی بار لکھا تھا تو یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ صرف اپنی تحریروں ہی سے نہیں، اپنے جسم سے بھی کسی اور کے لیے تحفہ چھوڑ جائیں گی۔ آج جب یہ سنا کہ ان کی آنکھ ایک استاد کو لگا دی گئی ہے اور وہ دیکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ہم سب اس قابل ہو سکتے ہیں، ہمیں صرف دل بڑا کرنا ہے۔ زبیدہ مصطفیٰ کی طرح ہمیں بھی سوچنا ہے کہ ہماری زندگی کسی اورکے کام آ سکتی ہے اور اگر ہم میں سے ہر شخص صرف یہی ایک فیصلہ کرے کہ مرنے کے بعد اس کے اعضاء کسی ضرورت مند کو عطیہ ہو جائیں گے تو ہم ہزاروں جانیں بچا سکتے ہیں، لاکھوں خوابوں کو تعبیر دے سکتے ہیں۔

برسوں پہلے میں نے اپنی آنکھیں اور باقی اعضاء موت کے بعد عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور میری موت کے بعد SIUT کو میری آنکھیں اور دیگر اعضاء عطیہ کر دیے جائیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بعد کوئی ان آنکھوں سے دنیا دیکھے، کتابیں پڑھے اور امن کے خواب دیکھے۔ میری بیٹی سحینا نے بھی 2022میں اپنے اعضاء SIUT کو عطیہ کیے ہیں۔ یہاں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کی موت کے بعد آپ کے رشتے دار اس بات کی اہمیت کو سمجھیں اور جلد سے جلد اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اعضاء عطیہ کردیے جائیں، طبی موت کی صورت میں آٹھ گھنٹے کے اندر آنکھ کا عطیہ ہو جانا چاہیے۔ یقینا گھر والوں کے لیے وہ وقت بہت کٹھن ہوتا ہے مگر آپ کا پیارا مرنے کے بعد کسی اور انسان کے کام آسکتا ہے اور کسی کی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے، اس سے زیادہ خوبصورت کیا بات ہوگی۔

موت اگر کسی اور کی زندگی بن جائے تو وہ اختتام نہیں، ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ زبیدہ مصطفیٰ نے یہ آغازکر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اُن کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت رکھتے ہیں یا نہیں۔ ان کی طرح ہم بھی یہ کہنے کے قابل ہو سکیں گے کہ’’ میں مر نہیں رہی، میں تم میں زندہ رہوں گی، تمہاری آنکھوں میں، تمہارے خوابوں میں۔‘‘

ارتقاء انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز گلشن پبلک اسکول کے اشتراک سے زبیدہ مصطفی کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس 19 جولائی کو شام پانچ بجے اسکول کے احاطے میں منعقد کر رہا ہے۔ یہ عمل نہایت قابلِ تحسین ہے کہ ہم اُن ہستیوں کو یاد رکھیں جنھوں نے ہمارے سماج کو شعور روشنی اور انسانیت کا پیغام دیا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات