30 C
Lahore
Monday, July 21, 2025
ہومغزہ لہو لہومصنوعی ذہانت - ایکسپریس اردو

مصنوعی ذہانت – ایکسپریس اردو


عالمی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، اور اس تبدیلی کا سب سے طاقت ور محرک ’’مصنوعی ذہانت‘‘ یعنی Intelligence Artificial (AI) ہے۔ یہ صرف ایک تیکنیکی اصطلاح یا لیبارٹری کا موضوع نہیں رہا، بلکہ اب انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا چکا ہے۔ چاہے وہ تعلیم ہو یا صحت، معیشت ہو یا دفاع، مواصلات ہو یا میڈیا، حکومت ہو یا عدلیہ مصنوعی ذہانت نے انسانی صلاحیتوں کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ مگر یہ ترقی جہاں مواقع لائی ہے، وہیں بے شمار چیلنجز اور خدشات بھی پیدا کر رہی ہے۔

مصنوعی ذہانت کی تاریخ تو کئی دہائیوں پر محیط ہے، مگر حقیقی معنوں میں اس کا انقلابی استعمال گذشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آیا، خاص طور پر جب ChatGPT جیسے جدید جنریٹیو ماڈلز نے دنیا کو حیران کردیا۔ صرف ایک تحریری انٹرفیس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، سوالات اور منصوبے AI کو سونپ سکتا ہے، اور وہ لمحوں میں علمی، لسانی، سائنسی، قانونی یا تخلیقی مشورہ دینے کے قابل ہوتا ہے۔ یہی نہیں، اب AI نہ صرف متن بلکہ آواز، ویڈیو، تصویر، کوڈ، اور 3D ماڈلز کی تخلیق میں بھی استعمال ہورہا ہے۔

2025 میں دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک AI کو پالیسی سازی، صحت کے تجزیوں، معاشی فیصلوں، صنعتی پیداوار، اور فوجی منصوبہ بندی میں استعمال کر رہے ہیں۔ چین، امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، اور اسرائیل جیسی طاقتیں AI کو اپنی تزویراتی برتری ( superiority strategic) کا اہم ہتھیار سمجھتی ہیں۔ چین میں نگرانی (surveillance) کے لیے استعمال ہونے والا AI دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ ہے، جہاں چہرہ شناسی ( recognition facial)، رویے کی نگرانی، اور پیشگی گرفتاری کے امکانات تک کی مشق ہوچکی ہے۔ امریکا میں AI کا دائرہ عمل طبی تشخیص، خلائی تحقیقات، اور دفاعی آلات تک پھیل چکا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ تبدیلی ایک موقع بھی ہے اور چیلینج بھی۔ ہمارے ملک میں AI پر تحقیق، تعلیم، اور صنعت کا دائرہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن نوجوان نسل میں اس کا شعور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کئی یونیورسٹیوں میں AI پر بیچلرز، ماسٹرز اور ریسرچ پروگرامز کا آغاز ہوچکا ہے، جب کہ کچھ اسٹارٹ اپ کمپنیاں بھی ڈیٹا سائنس، مشین لرننگ اور لینگویج ماڈلز پر کام کر رہی ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی 2023 میں قومی AI پالیسی متعارف کروائی، جس کا مقصد AI کو تعلیم، صحت، زراعت، اور انفرااسٹرکچر میں شامل کرنا ہے، اس شعبہ پر ملک بھر میں خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔

مصنوعی ذہانت نے روزگار کے میدان میں بھی انقلاب برپا کردیا ہے۔ جہاں ایک طرف نئی مہارتوں اور ملازمتوں نے جنم لیا ہے جیسے AI انجینئر، ڈیٹا سائنٹسٹ، پرامپٹ رائٹر، اور روبوٹ ٹرینر، وہیں دوسری طرف کئی روایتی پیشے خطرے میں ہیں۔ مثال کے طور پر، بنیادی درجے کی کلرک، کسٹمر سروس ایجنٹ، مترجم، ایڈیٹر، اور یہاں تک کہ ابتدائی سطح کے وکیل اور ڈاکٹروں کے کردار بھی AI سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کی ضرورت ختم ہو رہی ہے، بلکہ اب صرف وہی افراد کامیاب ہوں گے جو نئی ٹیکنالوجی کو سمجھیں، سیکھیں، اور اس سے ہم آہنگ ہوں۔

مصنوعی ذہانت کی ترقی نے تعلیمی میدان میں بھی زبردست امکانات پیدا کیے ہیں۔ طلبہ اب ChatGPT جیسے ٹولز سے اپنے اسائنمنٹس کی تیاری، تحریر کی اصلاح، اور تحقیق میں مدد لے سکتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ تعلیمی اداروں کو اخلاقی حدود اور اصل محنت کے توازن کو برقرار رکھنا ہوگا۔ اگر طلبہ صرف AI پر انحصار کریں اور خود تحقیق و سوچ کی عادت چھوڑ دیں تو یہ علمی انحطاط کا سبب بنے گا۔

میڈیا اور تفریح کی دنیا میں بھی AI کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔ اب فلموں کے اسکرپٹ، کردار، حتیٰ کہ مکمل ویڈیوز بھی AI سے بنائی جا سکتی ہیں۔ آواز کی نقل، چہرے کی جعل سازی (deepfakes)، اور AI-generated news  کا دور آ چکا ہے۔ یہ پیش رفت جہاں تخلیق اور اظہار کی آزادی کے لیے نئی راہیں کھولتی ہے، وہیں جھوٹ، فریب اور گم راہ کن معلومات کی یلغار کا خطرہ بھی بڑھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں AI کے استعمال کو قانون، اخلاق، اور ضابطہ کاری کے دائرے میں لانے کی کوششیں تیز ہوچکی ہیں۔

2024 میں یورپی یونین نے دنیا کا پہلا جامع AI ایکٹ منظور کیا، جس میں مختلف AI ایپلیکیشنز کو خطرے کی بنیاد پر درجہ بندی دی گئی ہے: کم خطرہ، محدود خطرہ، اور زیادہ خطرہ۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ AI کا استعمال انسانوں کے بنیادی حقوق، رازداری، اور آزادیوں کے منافی نہ ہو۔ امریکا، کینیڈا، اور آسٹریلیا میں بھی اسی طرز کی قانون سازی پر کام ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی AI پر عالمی ضابطہ اخلاق تیار کرنے کے لیے مشاورتی اجلاس شروع کیے ہیں۔

مگر ایک خطرہ ایسا ہے جس نے نہ صرف ماہرین، بلکہ عام انسانوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے، اور وہ ہے مصنوعی ذہانت کا انسانی ذہن سے آگے بڑھ جانا۔ ماہرین اسےArtificial General Intelligence یا AGI کہتے ہیں یعنی ایسی ذہانت جو انسان کی مانند خود فیصلہ کرنے، سیکھنے، اور ارتقاء پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس پر Musk Elon، Altman Sam، Hinton Geoffrey، اور AI کے دیگر بانیوں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت کنٹرول نہ کیا گیا اور قانون نہ بنایا گیا، تو AI انسانوں پر حاوی ہوسکتی ہے، اور ایسے خطرناک نتائج جنم دے سکتی ہے جنہیں روکا نہ جاسکے گا۔

کچھ ماہرین اس خدشے کو فضول یا افواہ سمجھتے ہیں، لیکن جدید جنریٹیو AI ماڈلز کی برق رفتاری سے ترقی نے اس اندیشے کو تقویت دی ہے۔ مثلاً GPT-4o یا Sora جیسے ماڈلز صرف معلومات نہیں، بلکہ جذبات، لہجے، اور انسانی اندازِگفتگو کی حیرت انگیز نقل کرتے ہیں۔ روبوٹس اب انسانی شکل و حرکات کے قریب تر ہو چکے ہیں۔ اگر ان روبوٹس کو AI سے جوڑ دیا جائے تو وہ مستقبل قریب میں نگہ داشت، تدریس، جنگ، تجارت، اور حتیٰ کہ جذباتی مشورے تک دے سکیں گے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں انسانی شناخت، اخلاقیات اور معاشرت کو نئی تعریفوں کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ اگر ہم ابھی سے اپنی نوجوان نسل کو AI، کوڈنگ، ڈیٹا سائنس، اخلاقی ٹیکنالوجی اور سائبر سیکیوریٹی میں مہارت نہ دلوائی تو آنے والے دور میں ہم صرف ٹیکنالوجی کے صارف رہ جائیں گے، تخلیق کار نہیں۔ ضروری ہے کہ قومی سطح پر AI کے حوالے سے ایک عملی حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس میں نصاب سازی، ریسرچ فنڈنگ، بین الاقوامی شراکت، انڈسٹری-اکیڈمیا لنک، اور سیکیورٹی مینجمنٹ شامل ہوں۔ اسی طرح اسلامی اصولوں کی روشنی میں AI کے استعمال کا اخلاقی دائرہ بھی تشکیل دینا ہوگا، تاکہ ہم اندھے پیروکار نہ بنیں بلکہ سوچے سمجھے رہنما ہوں۔

مصنوعی ذہانت ایک انقلاب ہے، مگر ہر انقلاب کی دو صورتیں ہوتی ہیں: یا تو وہ انسان کو بلند کردیتا ہے یا پھر غلام بنا دیتا ہے۔ AI کی صورت میں تاریخ ہمیں ایک ایسا چوراہا دکھا رہی ہے جہاں سے ہم علم، ترقی، حکمت اور انصاف کی راہ بھی چن سکتے ہیں اور خودغرضی، انحطاط اور ظلم کی تاریک گلی بھی۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو کس رخ پر لے جانا چاہتے ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات