امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام کے عبوری صدر جولانی پر مہربان کیوں ہے؟ جب کہ اقوام متحدہ کی مندوب برائے انسانی حقوق فرانسسکا البانیز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ جولانی جس کا ماضی ایک دہشت گرد ہے اور ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگین ہے لیکن پھر بھی ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ مہربان ہے، جب کہ دوسری طرف انسانی حقوق کی بات کرنے اور غزہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب سے جاری دہشتگردانہ کارروائیوں پر آواز اٹھانے کے جرم میں انسانی حقوق کی کارکن پر پابندی کی بات کی جا رہی ہے۔
جولانی کے لیے امریکی سخاوت کے پیچھے کیا راز ہے؟ کیا جولانی جیسوں کی حمایت کرنے والے طبقے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟لیکن سچ یہ ہے کہ اب یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ الجولانی کے لیے امریکا کے اس جوش وخروش اور مایوس کن حمایت کے پیچھے کیا راز ہے؟ کیا واقعی یہ حمایت یقینی طور پر شامی عوام تک پہنچ پائے گی؟ وہ شامی عوام جو امریکا ہی کی وجہ سے غریب ہیں اور شاید آیندہ بھی ایسے ہی رہیںگے یا پھر یہ صرف امریکی انتظامیہ کی شام میں محض ایک چال ہے کہ وہ اس جولانی کی حکومت کو رسمی شکل دینا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جولانی ایک غیر جمہوری عمل کے ساتھ اقتدار پر قابض ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ ایک انتہا پسند ہے۔ اس کے باوجود، امریکا کو کسی بھی قسم کی سیاسی تقسیم کی پرواہ نہیں ہے۔
اس نے پرواہ نہیں کی اور نصرہ فرنٹ (یعنی القاعدہ) کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا، جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا، خاص طور پر وہ لوگ جو امریکی بیانیے کے مطابق 11 ستمبر کے حملوں میں القاعدہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔عرب دنیا کی ایک خاتون تجزیہ نگار ناران سرجون نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ امریکا جانتا ہے کہ وہ حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی، انصار اللہ اور حشد الشعبی سمیت ایران کو اپنے کنٹرول میں نہیں کر سکتا لیکن ان سب کے علاوہ جتنی بھی مذہب کے نام پر مزاحمتی تنظیمیں یا تحریکیں شام و ترکیہ اور دیگر علاقوں میں موجود ہیں وہ سب کے سب امریکا کے زیرکنٹرول ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب امریکا حقیقی مزاحمتی محورکے خلاف ایک نیا محور ایجاد کر رہا ہے کہ جس میں ترکیہ، قطر، سعودی عرب، امارات اور اردن کے درمیان کام تقسیم کیے جا چکے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ الجولانی کے تئیں اس امریکی فیاضی کا راز کیا ہے؟
درحقیقت، مغربی محققین کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا ہے اور مغربی دنیا کے محققین کا کہنا ہے کہ جولانی کو امریکا سے یہ سخاوت اس لیے مل رہی ہے کہ بدلے میں، وہ امریکا کے لیے ہر وہ کام کررہا ہے جو اسے بتایا جارہا ہے۔ تاہم، مغربی محققین کا نقطہ نظر اس نظریے کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے کہ الجولانی کو جنگ کے لیے تیارکیا جا رہا ہے۔
محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ جولانی کے لیے سخاوت اس لیے بھی ہے کہ وہ خود ایک یہودی ہے۔درج بالا رائے کے بعد جب جولانی کے اپنے اقدامات کی طرف نظر دوڑائی جا رہی ہے تو یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جولانی غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کے لیے مدد گار ہے۔ اس وضاحت نے مجھے درحقیقت چونکا دیا ہے، حالانکہ میں نے پہلے اس مفروضے پر بحث کی تھی۔ تاہم، اس ناقابل فہم صورتحال کے بعد مغربی رائے عامہ کے رہنما اور ماہرین جن کے ساتھ میں بات چیت کرتا ہوں، اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ غاصب صیہونی ریاست کے لیے سب سے اہم اور عظیم کام انجام دے رہا ہے۔
مثال کے طور پر، وہ گولان کی پہاڑیوں پر دوبارہ دعویٰ نہیں کرے گا۔ بلکہ، وہ لوگوں کو یہ کہہ کر بے وقوف بنائے گا کہ وہ اس کا صرف ایک تہائی یا دو تہائی حصہ دوبارہ حاصل کرے گا، لیکن وہ اسے اسرائیل میں خود بخود قابل تجدید لیز کے تحت رکھے گا۔ دوسرے لفظوں میں، اس نے اسے چھوڑ دیا ہے۔یہ جولانی بغیر کسی جواز کے شامی ریاست کو ختم کر رہا ہے۔
جولانی پورے عرب اور مشرق وسطی ٰ کو تباہ کر کے ان مقدس مقامات کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو سیکڑوں سالوں سے دمشق کے لوگوں کے درمیان امن کی نشانیاں ہیں۔ ان مقدس مقامات میں تمام مسالک کے مقدس مقامات موجود ہیں۔ جولانی نے امریکی حکم پر شام میں فرقہ وارانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے یعنی آج دمشق میں شیعہ مذہب کے لیے مقدس مزارات کے خلاف عداوت پھیلائی جا رہی ہے تاکہ مذہبی جنگ کو بھڑکایا جا سکے۔
اگر ایسا ہوا تو پھر ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ شام واپس لوٹ آئے گا۔ جولانی اس علاقے میں دسیوں ہزار نئے باشندوں کو لا کر ایک خطرناک آبادیاتی تبدیلی لا رہا ہے۔ یہ ایسے شدت پسند لوگ ہیں جن کو مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنا اور مقدس مقامات کو نقصان پہنچانا اسرائیل کو نقصان پہنچانے سے زیادہ عزیز ہے۔بہر حال حیرت اس بات کی ہے کہ شام اور شام کے باہر جولانی کی حمایت کرنے والے لوگ آنکھوں اور عقل دونوں ہی سے اندھے ہوچکے ہیں اور ان کو جولانی کی اسلام دشمنی اور شام دشمنی بالکل بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان حالات کو دیکھ ایسا لگتا ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ کے ممالک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ جولانی کے ذریعے انجام دینا چاہتا ہے۔