جنوبی ایشیا، جہاں دنیا کی 25 فیصد آبادی رہتی ہے، آج موسمیاتی تبدیلی کے شدید ترین اثرات کی زد میں ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں برف پگھلتی ہے تو میدان ڈوب جاتے ہیں، اور بارش برسنے سے پہلے ہی خشک سالی اناج چھین لیتی ہے۔اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ (UNESCAP 2024) کے مطابق، جنوبی ایشیا موسمیاتی خطرات کے حوالے سے دنیا کا سب سے غیر محفوظ خطہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں موسمیاتی آفات نہ صرف انسانی جانوں کا زیاں کرتی ہیں بلکہ معاشی استحکام، خوراک، صحت اور نقل مکانی جیسے شعبوں پر بھی کاری ضرب لگاتی ہیں۔آئی پی سی سی کی چھٹی جائزہ رپورٹ (AR6) کہتی ہے کہ ’’جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہریں، شدید بارش، سمندری طوفان اور گلیشیئرکا پگھلاؤ 2040سے پہلے ہی بحران کی شدت کو اس سطح پر لے آئیں گے جو پہلے 2100کے لیے متوقع تھی۔‘‘
پاکستان 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد بھی موسمیاتی غیر یقینی کی کیفیت سے نہیں نکل سکا۔ جون 2025 میں گلگت بلتستان کے گلیشیئرز میں ریکارڈ درجہ حرارت (48.5°C) سے برف تیزی سے پگھلی، جس کے نتیجے میں 70 سے زائد جانیں ضایع ہوئیں۔جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس 2024کے مطابق، پاکستان موسمیاتی خطرات کے اعتبار سے دنیا کے اولین دس ممالک میں شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پالیسی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم صرف عالمی حدت کا شکار نہیں بلکہ اپنی انتظامی غفلت کا بھی شکار ہیں۔بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی ) کی رپورٹ 2022کے مطابق، پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کا پگھلاؤ جنوب ایشیا میں سب سے زیادہ خطرناک ہے، جس کی وجہ سے آنے والی دہائیوں میں دریائی نظاموں میں اتار چڑھاؤ اور پانی کی قلت/سیلاب جیسے شدید تضادات پیدا ہوں گے۔
بھارت میں 2024–25 کے دوران درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا، جس کے نتیجے میں 219 افراد ہلاک ہوئے اور 25,000 سے زائد کو ہیٹ اسٹروک کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس، بنگلور کی ایک تحقیق کے مطابق، اگر درجہ حرارت میں صرف 1 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو تو گندم کی پیداوار 4 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ع
المی موسمیاتی تنظیم کی 2023 رپورٹ کے مطابق، بھارت میں ہیٹ ویوز کے دورانیے میں 2 گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کا اثر خاص طور پر زرعی علاقوں پر گہرا پڑا ہے۔ آئی پی سی سی خبردار کرتا ہے کہ اگر 1.5°C سے زیادہ درجہ حرارت بڑھا تو بھارت میں 10 فیصد سے زائد زرعی زمین غیر پیداواری ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر وندنا شیوا، ماحولیات و زراعت کی عالمی شہرت یافتہ ماہر، خبردار کرتی ہیں کہ ’’ہمارا زرعی نظام صنعتی طریقوں پر مبنی ہے جو موسمیاتی لچک سے محروم ہے، اگر ہم مقامی بیجوں، پانی کے بہتر استعمال اور کاربن کم زراعت کی طرف نہ گئے تو موسمی بحران ہمیں قحط تک لے جا سکتا ہے۔‘‘ مئی 2025 میں سائیکلون‘‘ریمال’’نے ساحلی علاقوں کو روند ڈالا، 800,000 سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور معیشت کو کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔
بنگلہ دیش انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اسٹڈیز (BIDS) کی تحقیق کے مطابق، سمندر کی سطح میں ہر سال 3 ملی میٹر اضافہ ڈھاکا، کھلنا اور چٹاگانگ جیسے شہروں کو آیندہ 20 سالوں میں خطرناک زون میں داخل کر سکتا ہے۔ آئی پی سی سی کے مطابق، بنگلہ دیش وہ ملک ہے جسے سمندر کی بلند ہوتی سطح، شدید بارش اور موسمی مہاجرین کے مسائل ایک ساتھ درپیش ہیں۔2022کی ورکنگ گروپ 2 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی، تو 2050 تک بنگلہ دیش میں 1.3 کروڑ افراد ساحلی علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فرزانہ رحمان، ڈھاکا یونیورسٹی میں ماحولیات کی پروفیسر، کہتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش کے لیے آب و ہوا سے جڑے چیلنجز صرف سمندر نہیں، بلکہ شہری پھیلاؤ، کمزور انفرااسٹرکچر اور غربت بھی ہیں۔‘‘ نیپال کے ہمالیائی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOFs) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ICIMOD (انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ) کی رپورٹ کے مطابق، نیپال میں 200 سے زائد گلیشیئر جھیلیں خطرناک حد کو چھو رہی ہیں۔
ICIMODاور IPCC کی مشترکہ تحقیق کے مطابق، ہمالیائی گلیشیئرز میں 2100 تک ایک تہائی سے زائد برف ختم ہو سکتی ہے، چاہے عالمی سطح پر درجہ حرارت 1.5°C تک محدود کر لیا جائے۔یہ نہ صرف نیپال بلکہ پورے خطے کے دریائی نظام کو متاثر کرے گا۔ سونم وانگچوک، ہمالیہ کے ماحولیاتی ماہر اور سماجی کارکن، کہتے ہیں کہ’’ہمیں پہاڑوں کو صرف سیاحت یا پانی کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ہمارے وجود کا قدرتی ذخیرہ ہیں، اگر ہم نے انھیں نہ بچایا تو نیچے بسنے والے تمام شہر خطرے میں ہوں گے۔‘‘
سری لنکا میں 2023–24کے دوران شدید بارشوں نے سیلابی کیفیت پیدا کی، جب کہ ملک کے دیگر حصے شدید خشک سالی سے نبرد آزما رہے۔سری لنکا کی موسمیاتی آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق، صرف دو سال میں زرعی زمینوں کا 28% حصہ یا تو پانی میں ڈوبا یا بنجر ہو چکا ہے۔.
عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024 رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا کے موسمی پیٹرن میں شدید عدم توازن آ چکا ہے ،ایک ہی سال میں خشک سالی اور سیلاب کا امتزاج اس بات کی علامت ہے کہ موسمیاتی نظام‘‘Unpredictable Phase’’میں داخل ہو چکا ہے۔پروفیسر نرملا پیریرا، کولمبو یونیورسٹی سے وابستہ محقق، کہتی ہیں کہ ’’موسمیاتی تبدیلی اب نظریاتی مسئلہ نہیں، بلکہ زمینی حقیقت ہے۔ پانی، خوراک، صحت، ہر شعبے کو مکمل طور پر نئے نظامِ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔‘‘
آئی پی سی سی ،یونیپ اور عالمی موسمیاتی تنظیم کی رپورٹس اس امر پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا کا خطہ ’’ موسمیاتی ہاٹ اسپاٹ ‘‘ بن چکا ہے۔اگر 2030 تک کاربن اخراج میں کمی اور مقامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہاں ہر سال کروڑوں افراد ہیٹ ویوز، پانی کی قلت، اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوں گے اور علاقائی تعاون (مثلاً سارک) کے بغیر یہ بحران قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔
ماحولیاتی بحران کی نوعیت بین الاقوامی ہے، مگر جنوبی ایشیا میں اس کا جغرافیائی اور اقتصادی دائرہ خاص طور پر سنگین ہے۔ اس پس منظر میں درج ذیل اقدامات ایک ممکنہ علاقائی نجات فراہم کر سکتے ہیں،مثال کے طور پر سارک کی سطح پرکلائمیٹ ریزیلئنس فورم کا قیام ، مشترکہ سیلاب و خشکی الرٹ سسٹم ،گلیشیئر مانیٹرنگ نیٹ ورک،زرعی پیش گوئی اور فصل کا تحفظ پروگرام،ماحولیاتی مہاجرین کے لیے پالیسی فریم ورک،گرین ٹرانزیشن فنڈز کی علاقائی تقسیم اور اس جیسے دیگر اقدامات کے ذریعے جنوبی ایشیا کے ممالک موسمیاتی بحران سے نمٹنے کا مشترکہ حل نکال سکتے ہیں۔جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی بحران کو اقوامِ متحدہ، IPCC اور WMO نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کے اثرات کی شدت کی بارہا وارننگ دی ہے۔
اس کے باوجود علاقائی سطح پر مشترکہ حکمت عملی کا فقدان شدید تشویش کا باعث ہے۔اب صرف ماہرین کی باتیں یا رپورٹس پڑھنا کافی نہیں ، اب وقت ہے کہ جنوبی ایشیا اپنے لوگوں، دریاؤں، پہاڑوں، اور فصلوں کو مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے بچائے۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب تاریخ موسمیاتی تبدیلی کو ایک اجتماعی غفلت کا سانحہ قرار دے گی۔جنوبی ایشیا اگرچہ نسلی، لسانی اور سیاسی سطح پر متنوع خطہ ہے، مگر موسمیاتی خطرات نے تمام سرحدوں کو ایک مشترکہ خطرے میں بدل دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم باہمی شکوک و شبہات کو پیچھے چھوڑ کر مستقبل کی خاطر مل کر اقدامات کریں۔موسمیاتی بحران کا جواب صرف ماہرین یا حکومتوں پر چھوڑنا کافی نہیں، یہ اجتماعی شعور اور اجتماعی عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔اگر ہم نے آج متحد ہو کر نہیں سوچا، تو کل کا جنوبی ایشیا نہ صرف گرم ترین بلکہ غیر محفوظ ترین خطہ ہوگا۔