پاکستان میں غیرمعمولی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شدید بارشوں کے باعث ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلابی صورت حال بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ مون سون سیزن کا اہم پہلو اربن فلڈنگ بھی ہے۔ بارشوں کے باعث نقصانات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن اس بار ان کی شرح زیادہ ہے۔ خصوصاً خطہ پوٹھوہار میں صورت حال غیرمعمولی حد تک سنگین ہوئی ہے۔
ابھی دریاؤں کی صورت حال خاصی حد تک کنٹرول میں ہے تاہم کشمیر، پاکستان کے بالائی پہاڑی علاقے مسلسل بارش کی زد میں ہیں جب کہ بھارت میں بھی شدید بارشیں جاری ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ جولائی کے آخر تک دریاؤں میں سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ خصوصاً زریں سندھ میں سیلاب آ سکتا ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جمعے کو بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشیں ہوئی ہیں۔ فوج اور دیگرامدادی اداروں کی طرف سے سیلابی صورتحال میں پھنسے اب تک ہزاروں افراد کو ریسکیوکیا جاچکا ہے۔ پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے20سے25جولائی تک بارشوں کے چوتھے اسپیل کا الرٹ جاری کردیا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دن آسان نہیں ہوں گے۔ پی ڈی ایم اے نے خبردار کر دیا ہے کہ راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، گجرات، جہلم اور گوجرانوالہ میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش ہو گی۔ لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، نارووال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، سرگودھا اور میانوالی میں بھی بارشوں کا امکان ظاہر کیا ہے۔
جنوبی پنجاب کے اضلاع ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور اور بہاولنگر میں بارشوں کی پیشگوئی ہے۔ ادھر خیبر پختونخوا میں بھی محکمہ موسمیات نے 22سے25جولائی تک طوفانی بارشوں کی پیشن گوئی کردی ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق دیر، سوات، چترال، کوہستان، مالاکنڈ، شانگلہ، بٹگرام، بونیر، کوہاٹ، کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، ڈی آئی خان، باجوڑ، مہمند، خیبر، وزیرستان، اورکزئی، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، مردان، صوابی، ہنگو اور کرم میں تیز ہواؤں، گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارشوں کا امکان ہے۔
گلیات، مانسہرہ، کوہستان، ایبٹ آباد، بونیر، چترال، دیر، سوات، شانگلہ، نوشہرہ، صوابی اور مردان کے مقامی اور برساتی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ موجود ہے، جب کہ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔پی ڈی ایم اے پنجاب نے دریائے سندھ میں کالا باغ اور چشمہ کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا ہے۔
پنجاب میں گزشتہ روز مختلف حادثات میں کم ازکم 14 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ مون سون بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے کے باعث دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔دریائے سندھ میں تربیلا اور چشمہ کے مقامات پر نچلے درجے جب کہ کالا باغ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ تاہم دریائے راوی، چناب، جہلم اور ستلج میں پانی کا بہاؤ نارمل سطح پر ہے، ڈیرہ غازی خان کی رودکوہیوں(برساتی نالے) میں بھی پانی کی صورتحال معمول کے مطابق ہے۔
دنیا بھر میں اپنے اپنے موسم کے حساب سے بارشوں کا سیزن ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ یورپ، ایشیائی ممالک جن میں چین، ملائیشیا، فلپائن اور انڈونیشیا وغیرہ شامل ہیں، ان ملکوں میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح افریقہ اور لاطینی افریقہ کے بعض ممالک میں غیرمعمولی بارشیں ہوتی ہیں۔
غور کیا جائے تو جو ممالک ترقی یافتہ ہیں، ان ممالک میں ادارہ جاتی نیٹ ورک بہت زیادہ فعال ہوتا ہے۔ بلدیاتی یا شہری ادارے فعال ہونے کی بناء پر قدرتی آفات جیسے بارشیں، دریائی سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، سمندری طوفان یا زلزلے وغیرہ سے جانی و مالی نقصانات کم ہوتے ہیں جب کہ غریب اور پسماندہ ممالک میں بہت زیادہ جانی ومالی نقصانات ہوتے ہیں۔ ایسے ترقی پذیر ممالک جن میں ادارہ جاتی ڈھانچہ تو موجود ہے لیکن وہ فعال نہیں ہے، وہاں بھی نقصانات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
پاکستان میں غیرمعمولی بارشیں ہوں، دریاؤں میں سیلاب آ جائے، پہاڑی علاقوں میں لینڈسلائیڈنگ ہو جائے یا پہاڑی ندی نالوں میں اچانک اور تیزرفتار سیلاب امڈ آئے، تو اس سے نقصانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ قدرتی آفت کی شدت سے زیادہ انتظامی اداروں کی غیرفعالیت، سرکاری اداروں کے افسروں اور ملازمین کا غیرتربیت یافتہ ہونا، اپنے قانونی فرض سے کوتاہی برتنا اور مالی بدانتظامی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مون سون موسمی مظہر نہیں رہا بلکہ ایک ہمہ جہت بحران بن چکا ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گو حالیہ بارشوں کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے، تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ بارشوں کے پانی کو ہینڈل نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب حکومت نے اس بار خاصی حد تک اداروں کو فعال کیا ہے جس کی وجہ سے لاہور جیسے میگا سٹی میں غیرمعمولی بارشیں ہوئی ہیں لیکن پانی سڑکوں اور گلیوں سے فوراً نکل گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ سیوریج سسٹم خاصی حد تک فعال رہا۔ ملازمین نے اپنا کام کیا ہے تاہم یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض وفاقی ادارے عین مون سون سیزن شروع ہونے کے قریب کئی شاہراہوںمیں پائپ ڈالنے کے لیے کھدائی کر ڈالتے ہیں۔ اس دوران بارشیں ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے صوبائی حکومت اور متعلقہ ڈسٹرکٹ اداروں کے لیے صورت حال سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر محکمہ سوئی گیس یا بجلی کے محکمے مون سون کے دوران کھدائی والے کاموں کو نہ کریں یا متعلقہ صوبائی حکومت اور محکموں کے ساتھ ایک مربوط رابطے کے ساتھ کام کریں تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بجلی کا محکمہ مون سون کے دوران پوری طرح فعال اور مستعد رہے۔
مون سون کے دوران ٹرانسمیشن لائنوں کی مسلسل چیکنگ جاری رہے، بجلی کے کھمبوں کے ارتھ کو چیک کیا جائے تو کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی۔ اسی طرح واسا کا عملہ گلی گلی اور محلوں محلوں میں مین ہولز کی چیکنگ کرے تو مین ہولز میں گر کر ہلاکتوں کی شرح بھی کم ہو جائے گی۔ یہ ایسے کام ہیں جو ناممکن نہیں ہیں۔ ضرورت صرف فرض شناسی، مستعدی اور مسلسل کام جاری رکھنے کا عزم ہے۔
ان دنوں پاکستان میں ندی، نالوں اور دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے، بھارت میں بھی مسلسل بارتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت میں ڈیم بھر رہے ہیں۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں میں پانی چھوڑ دے۔ جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ میں سیلاب آ سکتا ہے کیونکہ دریائے راوی، جہلم، چناب، بیاس اور ستلج کا پانی پاکستان میں آ کر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
ادھر پاکستان کے شمالی علاقوں میں جو بارشیں ہو رہی ہیں اور ندی نالے بھر رہے ہیں، وہ پانی بھی دریائے سندھ میں شامل ہو رہا ہے۔ یوں اپنے آخری سفر پر یہ پانی سندھ میں داخل ہو گا۔ جس سے سندھ میں سیلاب کے خطرات بڑھ جائیں گے، لہٰذا سندھ حکومت کو ابھی سے غیرمعمولی اقدامات کرنے چاہئیں۔ سندھ میں ماضی میں بھی سیلاب کی وجہ سے بہت زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ اس بار صورت حال کنٹرول میں رہے۔
پاکستان میں بارشوں کی شرح کا تعین محکمہ موسمیات بھی کرتا ہے اور دیگر ادارے بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تقریباً ایک صدی نہیں تو کم از کم ساٹھ ستر برس کا ریکارڈ تو لازمی موجود ہو گا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان ساٹھ ستر برسوں میں مون سون کے دوران یا دیگر ایام میں غیرمعمولی بارش کی شرح کیا رہی ہے اور کم سے کم شرح کیا ہے۔
دریاؤں کو بھی اسی پیمانے پر تولا جانا چاہیے۔ ان اعداد کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائی جائے تو آنے والے وقت میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ایسا کر کے دکھایا ہے۔ جاپان اور ہالینڈ کی مثال دی جا سکتی ہے۔
اسی طرح عوامی جمہوریہ چین کی مثال کو بھی دیکھا جائے تو چین نے بھی بارشوں اور سیلاب کے نقصانات کو بھی کم کیا ہے اور زائد پانی کو استعمال میں لا کر تعمیر وترقی کا نیا دور شروع کیا ہے۔ پاکستان بھی ٹاؤن پلاننگ پر غور کرے۔ سڑکیں کیسے تعمیر کی جاتی ہیں اور گرین بیلٹس کا معیار کیا ہوتا ہے، شہری علاقوں میں گراؤنڈز کو کس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
اکثر اوقات دورویہ سڑک کے سینٹر میں ایک بڑی گرین بیلٹ چھوڑی جاتی ہے جو کئی فٹ تک گہری ہوتی ہے۔ اسی طرح شہری علاقوں میں گراؤنڈز بھی کئی کئی فٹ گہری بنائی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنا بھی ہوتا ہے اور اس سے سڑکوں پر پانی بھی کھڑا نہیں ہوتا کیونکہ وہ نشیب میں گرین بیلٹ میں داخل ہو جاتا ہے یا گراؤنڈ میں چلا جاتا ہے۔ اس سے مین سیوریج سسٹم پر بوجھ کم پڑتا ہے جس سے سسٹم چوک نہیں ہوتا۔